failed-products-from-famous-companies

اونچی دُکان، پھیکا پکوان

دنیا بھر کے کاروباری حلقوں میں عام تاثر یہ ہی پایا جاتاہے کہ آج کل چیزیں معیار،قیمت اور پائیداری کے لحاظ سے نہیں بلکہ مشہور و معروف کمپنیوں کے برانڈز کے عنوان کے تحت فروخت ہوتی ہیں۔ نیز عام افراد کی اکثریت بھی خریداری کرتے وقت ”برانڈز“ کو خاص اہمیت دیتی ہے۔ یقینا کسی حد تک یہ بات درست بھی قرار دی جاسکتی ہے کہ زیادہ تر افراد اپنے پسندیدہ مخصوص برانڈ ز کی مصنوعات بطور خاص خریدنا پسند کرتے ہیں لیکن یہ کہنا یا سمجھنا کہ صارفین بڑے اور مشہور برانڈز کی غیر معیاری اور ناقص اشیاء بھی صرف اس لیئے خرید لیں گے کہ اُسے ایک مشہورو معروف کمپنی نے تیار کیا ہے۔حقائق کے قطعی منافی، بالکل ایک لغو اور فضول بات ہے۔ کیونکہ اعدادو شمار اور حقائق یہ بتاتے ہیں کہ صارفین خریداری کرتے وقت بڑے برانڈز کوترجیح تو ضرور دیتے ہیں لیکن بہر کیف، اُن کا دھیان ہمہ وقت خریدی گئی مصنوعات کی پائیداری اور معیار پر بھی بہر صورت رہتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عالمگیر شہرت رکھنے والی کمپنیوں کی بھی بعض اشیاء کئی بارصارفین کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتیں۔زیر نظر مضمون میں دنیا کی چند ایسی ہی مشہور و معروف کاروباری کمپنیوں کی ناکام مصنوعات کااحوال پیش ہے جنہیں ”برانڈز“ کا لاحقہ بھی فلاپ ہونے سے نہ بچا سکا۔ یعنی اونچی دُکان، کے پھیکے پکوان۔

ٹیسلا کا سائبر ٹرک
ٹیسلا (Tesla) کمپنی کے بانی ایلون مسک، ایک مشہور کاروباری شخصیت،انتہائی قابل انجینئر کے ساتھ ساتھ موجد اور سرمایہ کار بھی ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں مکمل طور پر بجلی سے چلنے والی گاڑیاں،دوبارہ استعمال کے قابل راکٹ کی تیاری اور اس جسے دیگر کئی بڑے انقلابی منصوبوں کے پیچھے ایلون مسک کا ہی انقلابی ذہن کار فرما ہے۔ ایلون نہ صرف سپیس ایکس اورٹیسلا موٹرزمیں سی ای اوہیں بلکہ سولر سٹی کے چیئرمین اور پے پال، زپ 2 کے شریک بانی بھی ہیں۔ ان سب منصوبوں سے بڑھ کر ایلون مسک نے ہائپر لوپ کے نام سے ایک نئے تصوراتی ٹرانسپورٹ سسٹم کے منصوبے پر بھی کام کررہے ہیں۔اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتاہے تو شاید دنیا میں طویل سفر کے بنیادی تصورات ہی بدل جائیں۔

ایلون مسک نے 2003 میں ٹیسلا کمپنی کا آغاز کیا تھا۔ٹیسلا کی ترقی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ 2011 میں ٹیسلا کی کل آمدنی 204.24 ملین ڈالر تھی اور 2018 میں یہ آمدنی 21461.27 ملین ڈالر تک بڑھ چکی تھی۔جبکہ رواں برس ٹیسلا کو جنوری سے مارچ تک کی سہ ماہی میں خالص منافع کی مالیت 448 ملین ڈالر رہی ہے۔یاد رہے کہ اس کمپنی کی عالمگیر وجہ شہرت دنیا کی بہترین برقی گاڑیاں بنانا ہی ہے۔ٹیسلا کا دعوی ہے کہ اُس کی تیارکی گئی تمام برقی گاڑیاں مکمل طور پر مینٹینس فری ہیں۔یعنی انہیں بعداز فروخت کسی بھی قسم کی مرمت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دراصل ایک عام گاڑی کم و بیش 4 ہزار پارٹس سے مل کر بنتی ہے،جبکہ ٹیسلا کی برقی گاڑی فقط 22 پارٹس سے تیار ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ٹیسلاحالیہ وقتوں میں جو بھی برقی گاڑی فروخت کررہی ہے۔ وہ اگر کسی تینیکی مسئلے کی بنا پر خراب ہوجائے تو ٹیسلا اپنے گاہک کو اُس خراب گاڑی کے عوض مفت میں دوسری نئی گاڑی فراہم کرنے کی گارنٹی بھی دیتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ برقی گاڑیوں کی تیاری کے علاوہ ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس کو دنیا کی واحد نجی خلائی کمپنی ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے اوروہ بہت جلد خلاکی سیاحت کے لیئے اپنا پہلا نجی خلائی مشن بھی بھیجنے والے ہیں۔ ایک ایسی کمپنی جو زمین اور خلا میں نقل و حمل کے حوالے سے دنیا بھر میں سرفہرست ہے،وہ بھی اپنا دامن ناکامی کے داغ سے آلودہ ہونے سے نہ بچا سکی۔جی ہاں!۔ سائبر ٹرک کو ٹیسلا کی تیارکردہ ابھی تک کی سب سے بدترین گاڑی کہا جاتاہے۔واضح رہے کہ 2019 میں سائبر ٹرک کو فروخت کے لیئے پیش کرتے ہوئے ایلون مسک نے دعوی کیا تھا کہ اُن کا بنایا گیا یہ ٹرک اس لحاظ سے دنیا کی سب سے محفوظ ترین سواری ثابت ہوگا کہ اس سائبر ٹرک کو کوئی بھی ٹریفک حادثہ نقصان نہیں پہنچاسکے گا کیونکہ اس کی تیاری میں الٹرا ہارڈ 30x اور کولڈ رولڈ اسٹین لیس اسٹیل کا فولادی شیشہ استعمال کیا گیا ہے،۔

بدقسمتی سے ٹیسلا کا یہ دعوی درست ثابت نہ ہوسکا اور سائبر ٹرک کا شیشہ اپنی تقریب رونمائی کے پہلے دن ہی ٹوٹ گیا۔یعنی جب ٹیسلا کمپنی کے ہیڈ آف ڈیزائن”فرینز وان ہولز ہوسن“نے ایک فولادی گیند چند فٹ کی دوری سے سائبر ٹرک پر پوری طاقت سے پھینک کر ماری تو ٹرک کا شیشہ بُری طرح سے چٹخ گیا۔ بظاہر اس کی وضاحت یہ دی گئی کہ شاید شیشہ کو نصب کرتے ہوئے کوئی پوشیدہ سقم رہ گیا ہوگا۔ مگر یہ جوازصارفین کو مطمئن کرنے کے لیئے لیئے ناکافی تھا اور یوں ٹیسلا کمپنی کی انتظامیہ کو سینکڑوں افراد کے سامنے سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقع پر ایلون مسک کا اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ”اُن کی تیار کیئے گئے سائبر ٹرک میں ابھی کافی بہتری کی گنجائش ہے۔۔۔۔۔۔ کم از کم یہ فولادی گیند شیشے کے آر پار نہیں گئی“۔حیران کن بات یہ ہے کہ اس سائبر ٹرک کی تعارفی قیمت صرف 70,000 امریکی ڈالر مقرر کی گئی تھی۔ لیکن سائبر ٹرک منصوبہ کی ناکامی نے ٹیسلا کمپنی کو مالی خسارہ کے ساتھ ساتھ،اُس کی ساکھ بھی شدید دھچکا پہنچایا۔

ایپل کا میکنٹوش ٹی وی
کالج میں ایک ساتھ پڑھنے والے دو ہم جماعت اسٹیوجابز اور اسٹیو ولکنیک نے مشترکہ طور پر 1976 میں ایپل کمپنی قائم تھی۔گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں دو کمپیوٹرز کی مدد سے شروع کی جانے والی کمپنی آج ایک وسیع و عریض ”تجارتی سلطنت“کا روپ دھار چکی ہے۔ حالیہ وقتوں میں ایپل کی ایجاد کردہ مصنوعات میک بک،آئی میک،آئی پوڈ، آئی پوڈ شفل، خاص طور پر آئی فون اور آئی پیڈ صرف ایک ضرورت ہی نہیں بلکہ متمول افراد کے لیئے امارت کے اظہار کا ذریعہ بھی بن چکی ہیں۔ یاد رہے کہ 2004 میں ایپل کمپنی کی سالانہ آمدنی جو 8 بلین ڈالر تھی، وہ 2020 میں بڑھ کر 270 بلین ڈالر تک جاپہنچی ہے۔ بظاہر اس بات پر یقین کرنا مشکل لگتا ہے کہ ایپل جیسی اعلیٰ تیکنیکی صلاحیتوں سے مالامال اور مشہور زمانہ ٹیک کمپنی نے بھی کبھی کوئی فضول اور غیر مقبول شئے بنائی ہوگی۔

بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ایپل کا تیار کردہ میکنٹوش ٹی وی،اپیل کمپنی کے بانی سٹیو جابز کے لیئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا تھا۔ واضح رہے کہ میکنٹوش ٹی وی کے متعلق یہ دعوی کیا گیا تھا کہ یہ مستقبل میں ہائبرڈ ٹی وی اور میک کمپیوٹر کا نعم البدل ثابت ہوگا اور اپنی منفرد خصوصیات کی بنا پر مستقبل کی ایک انقلابی ایجاد کہلائے گا۔ مگر میکنٹوش ٹی وی کے متعلق کیا گیا ایپل کا ہردعوی پانی کا بلبلہ ثابت ہوا،اور ڈیٹا رکھنے کی ناکافی گنجائش، غیر معیاری آڈیو،ویڈیو نظام،بد صورت ڈیزائن، بھاری بھرکم جسامت اور اپنے مہنگے دام کی وجہ سے میکنٹوش ٹی وی صارفین کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں انتہائی بُرے طریقے سے ناکام رہا اور جس صارف نے بھی اسے خریدا،اُس نے اگلے روز ہی اسے اسٹور کو واپس کرنے میں عافیت جانی۔ مقامِ افسوس تو یہ ہے کہ ایپل نے میکنٹوش ٹی وی اکتوبر 1993 میں متعارف کروایا تھا اور صرف چارماہ کی مختصر مدت کے اندر اندر ہی اسے فروری 1994 میں تمام اسٹورز سے واپس منگوا کر کمپنی کے گودام میں اسکریپ کردیا۔

کوکا کولا کی بد مزہ سبز چائے
کوکا کولا دنیا کی سب سے بڑی ہی نہیں بلکہ قدیم ترین غیر الکوحل مشروب ساز کمپنی بھی ہے،جسے 1892 میں قائم کیا گیا تھا۔کوکا کولا کا فارمولا تیار کرنے والا جان سٹیتھ پیمنٹن 8 جولائی 1831 کو جارجیا میں پیدا ہواتھا۔وہ ایک امریکن فارماسیسٹ تھا اور مشہور زمانہ کوکا کولا کی ایجاد اس کی وجہ شہرت بنی۔سٹیتھ پیمنٹن نے ریفارم میڈیکل کالج جورجیا میں داخلہ لیا اور 19 سال کی عمر میں فارماسیسٹ کی سند امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔امریکن سول وار کے دوران اس نے جنگ میں بھی حصہ لیا اور وہ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ گیا۔لیکن جب ایک دن اس کے پیٹ میں کسی وجہ سے شدید درد ہوا تو وہ درد سے چھٹکارے کے لیے مورفین استعمال کرنے لگا جس سے وہ نشہ آور شربت کا مستقل طور پر عادی ہو گیا۔لہذا اس نے اس نشے سے چھٹکارے کے لیے ایک شربت ایجاد کیا جسے کوکا وائن کا نام دیا گیا۔

لیکن جب اٹلانٹا اور فولڈن کاؤنٹی کے درمیان منشیات کی روک تھام کے حوالے سے معاہدہ طے پایا اور قانون بنا تو سٹیف کو مجبورا اپنی اس دوا کو الکوحل سے مکمل طور پر پاک کرنا پڑا۔اس نے مزید اس پر تحقیقات کیں اور اسے ایک دوا کے بجائے عام شربت کے طور پر بیچنے کا فیصلہ کیااور یوں مئی1886 میں اس مشروب کو،نئے نام کوکا کولا سے دنیا کے سامنے پیش کردیا گیا۔نیز سٹیتھ پیمبرٹن نے اپنے مشروب کی فروخت بڑھانے کے لیئے اس کے متعلق کئی صحت مند دعوے بھی کیئے۔مثلاً یہ ایک دماغی ٹانک ہے،جو سر درد، دماغی طور پر پرسکون اور تر و تازہ رکھنے کے لیے موثر ہے۔ کیونکہ اس زمانے میں امریکہ میں خیال کیا جاتا تھا کہ سوڈا یا کاربونیٹڈ واٹر صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے۔لہذا یہ مشروب عوام میں بے حد مقبول ہونے لگا۔سٹیف پیمٹن کی وفات کے بعد سن اٹھارہ سو چھیانوے میں ایک کاروباری شخصیت ایزا گری کینڈلر نے اسکو جدید طریقے سے مارکیٹ کرنا شروع کر دیااور دیکھتے ہی دیکھتے کوکا کولا دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی مشروب ساز کمپنی بن گی۔ جبکہ اس کی موجودہ بوتل کا ڈیزائن سن 1915 میں متعارف کروایا گیا تھا۔کوکا کولا نے سافٹ ڈرنکس کے جتنے بھی ذائقے متعارف کروائے،بلاشبہ اُن تمام کو دنیائے بھر کے صارفین کی جانب سے زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا کے ہر ملک میں کوکا کولا کا مشروب ساز نیٹ ورک موجود ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ2009 میں کوکا کولا کمپنی کی انتظامیہ نے سافٹ ڈرنکس کے ساتھ ساتھ صحت بخش سبز چائے متعارف کروانے کا منصوبہ پیش کیا۔اس منصوبہ کے تحت پیش کی جانے والی چائے کو ”کوک پلس گرین ٹی“ کا نام دیا گیا اور اس کا آغاز جاپان سے اس لیئے کیا گیا کہ وہاں کے مقامی افراد سبز چائے کے سب سے زیادہ دلدادہ سمجھے جاتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک جاپانی شخص 600 گرام سبز چائے سالانہ پی جاتاہے۔ کوکا کولا نے جاپان میں اپنی سبز چائے کی وسیع پیمانے پر تشہر کی اور صارفین کو یہ باور کروانے کی بھرپور کوشش کی کہ ”کوک پلس گرین ٹی“ میں اینٹی آکسائیڈ کے خصوصی طور پر کشید کئے گئے اجزاء شامل کیئے گئے ہیں۔ جن کی بدولت انسانی جسم میں پیدا ہونے والی غیر ضرور سوزش میں کمی واقع ہوگی اور موٹاپا اور کینسر جیسی موذی امراض کی روک تھام میں مدد حاصل ہوگی۔ تاہم کوکا کولا کی سبز چائے کو جاپانیوں نے انتہائی بدمزہ قرار دیتے ہوئے،مسترد کردیا اور کوکا کولا کمپنی کو جاپان میں کثیر سرمایہ سے لگائی گئی اپنی سبز چائے کی فیکٹری چند ماہ میں ہی بند کرنا پڑگئی۔ یا د رہے کہ اس منصوبے کی ناکامی کی وجہ سے کوکا کولا کو شدید مالی خسارہ برداشت کرنا پڑا اور کمپنی کے منتظمین نے سبز چائے کو عالمی سطح پر پیش کرنے کا منصوبہ بھی مکمل طور پر ختم کردیا۔

بی ایم ڈبلیو کی بے کار ”کاریں“
بی ایم ڈبلیو کمپنی کا مکمل نام (Bayerische Motoren Werke AG) ہے۔لیکن اسے عام طور پر BMW کے مختصر نام سے پکارا اور جانا جاتاہے۔بی ایم ڈبلیو جرمنی کی کار، اور موٹر سائیکل بنانے کی کمپنی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ کمپنی لڑاکا ہوائی جہاز بھی بناتی تھی۔ بی ایم ڈبلیو کا قیام 1913 میں عمل میں آیا تھا۔حالیہ برسوں میں بی ایم ڈبلیو کی گاڑیاں خوبصورتی اور پائیداری میں بے مثال ہونے کی وجہ سے اَمارت کا امتیازی نشان سمجھی جاتی ہیں۔گزشتہ برس 2020 میں کورونا وائرس کی عالمگیر وباکے باعث بڑی بڑی کار ساز کمپنیاں دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ گئی تھیں،وہیں بی ایم ڈبلیو کمپنی کی آمدنی 99 بلین یورو رہی تھی۔ اگرچہ بی ایم ڈبلیو کو معیاری اور پرکشش کاریں بنانے کے حوالے سے خاص شہرت حاصل ہے اور اس کی تیار کردہ کاریں بازار میں آنے سے قبل ہی فروخت ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بی ایم ڈبلیو کمپنی کی تیاردہ کئی کاروں کے ماڈل صارفین کی اُمیدوں پر پورا نہ اُترنے کی وجہ سے فلاپ کہلائے۔

مثال کے طور 1978 میں کمپنی نے M1 کے عنوان ایک ریسنگ کار متعارف کروائی تھی۔ لیکن یہ کار دیگر کارساز کمپنیوں کی بنائی گئی ریسنگ کار وں کے مقابلے میں زیادہ عرصہ تک نہ ٹک سکی اور 1979 میں فرانس کارریسنگ مقابلوں میں M1 ایک ناکام ترین کار ثابت ہوئی۔جس کی وجہ سے بی ایم ڈبلیو کو M1 ریسنگ کار کی تیاری اور فروخت مکمل طور پر بند کرنا پڑگئی۔علاوہ ازیں نومبر 2013 میں بی ایم ڈبلیو i8 کے نام سے ایک سپر کار، ریسنگ مقابلوں کے لیئے فروخت کے لیئے پیش کی۔ جس کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کمپنی انتظامیہ نے بتایا تھا کہ ”بی ایم ڈبلیو کی i8 سپر کار پلگ اِن ہائبرڈ کار ہے، جو ریسنگ مقابلوں کے لیئے دنیا کی سب سے محفوظ ترین کار ثابت ہوگی اور کمپنی نے 2020 تک i8 ماڈل کی 28000 کاریں دنیا بھر میں فروخت کرنے کا ہدف طے کیا ہے“۔مگر بدقسمتی سے بی ایم ڈبلیو کے ترجمان کا عوی سچ ثابت نہ ہوسکا اور صرف ایک سال کی قلیل مدت میں ہی i8 میں تیکنیکی نقائص نکل آنے کے باعث،اس کی تیاری اور فروخت کوبند کرنے کا اعلان کردیا گیا۔

ایمیزون کا فائر فون بھی جل کر راکھ ہوا
ایمیزون (Amazon) دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی ہے۔ جو انٹرنیٹ پر خرید و فروخت کے لیئے کثیر اقسام کی مختلف النوع مصنوعات پیش کرتی ہے۔ نیز ایمیزون کے بانی جیف بیوس کو ای کامرس انڈسٹر ی کا بے تاج بادشاہ بھی کہا جاتاہے اور بیوس دنیا کے امیر ترین افراد میں بھی سرفہرست ہیں۔جبکہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران ایمیزون کمپنی نے انٹرنیٹ پر اپنی مصنوعات کی ریکارڈ فروخت کا تاریخ ساز اعزار بھی اپنا نام کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ ایمیزون ریاستہائے متحدہ امریکا میں سب سے آمدنی کمانے والی کمپنی بھی ہے۔جس نے گزشتہ برس 2020 میں 386 بلین ڈالر کی مصنوعات فروخت کرکے کامیابی کا ایک نیا سنگ میل عبور کیا۔ مگر ان سب فقید المثال تجارتی کامیابی کے باوجود ایمیزون کی پیشانی پر بھی ایک بڑی ناکامی کا گہرا اور بدنما داغ چسپاں ہے۔ واضح رہے کہ 2014 میں ایمیزون نے ”فائر فون“ کے نام سے اسمارٹ فون دنیا بھر میں فروخت کے لیئے پیش کی۔جس کی تعارفی قیمت 200 امریکی ڈالر مقرر کی گئی تھی۔ جیف بیوس کو توقع تھی کہ ایمیزون کا یہ ”فائر فون“ انٹرنیٹ پر فروخت کے نئے ریکارڈ قائم کرے گامگر خلاف توقع ”فائر فون“ ایمیزون کی سب سے بدترین مصنوعہ ثابت ہوا۔

دراصل کئی ایسی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے”فائر فون“ صارفین کو اپنی جانب راغب کرنے میں بُری طرح سے ناکام رہا۔ جیسے سب سے پہلی وجہ فائر فون کا انتہائی مہنگا ہونا تھا۔ کیونکہ 2014 میں ایپل، سام سنگ اور دیگر اینڈرائیڈ اسمارٹ فون زیادہ خصوصیات اور کم قیمت میں پہلے ہی سے دستیاب تھے۔ نیز فائر فون کامحدود موبائل اپلی کیشنز کا حامل ہونا بھی اس کی ایک بڑی خامی تھی۔ دراصل ایمیزون ایپ اسٹور پر 24,000 ایپس موجود تھیں،جبکہ اس کے مقابلہ میں گوگل پلے اسٹور پر 1 ملین سے زائد اینڈرائیڈ اپلی کیشنز،اسمارٹ فون کے لیئے دستیاب تھیں۔ علاوہ ازیں ایمیزون کے فائر فون شکل و صورت اور ساخت کے لحاظ سے بھی ایپل آئی فون کے ہم پلہ نہیں تھا۔ اِن وجوہات کی بناء پر صارفین نے فائر فون میں بالکل دلچسپی نہ لی۔ یاد رہے کہ ایمیزون نے فائرفون کا مارکیٹ میں لانچ کرنے کے لیئے 170 ملین ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کی تھی۔ جوکہ فائرفون کے فلاپ ہونے کے ساتھ ہی ڈوب گئی۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ ایمیزون نے دو ماہ بعد ”فائر فون“ کو دو سالہ معاہدے پر ایک ڈالر سے بھی کم یعنی فقط 99 سینٹس کی آسان اقساط پر فروخت کے لیئے اپنی ویب سائیٹ پر پیش کیا تو تب بھی اسے صارفین نے خریدنے کی زحمت گوار ا نہیں کی۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 13 جون 2021 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں