Hajj in Islam

حج۔۔۔جامع العبادت

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بہت سی پرحکمت عبادات میں سے ایک پر حکمت عبادت حج بھی ہے۔حج کے لغوی معنی ارادہ اور مقصد کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں اس سے مراد ایسی عبادت ہے جو ہر سال ایک خاص لباس میں مخصوص دنوں میں مکہ مکرمہ،منی،عرفات اور مزدلفہ کے مقام پر مخصوص ارکان کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے،قرآن و حدیث کی رو سے حج کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔قرآن مجید میں حج کو صاحب ِ حیثیت انسان کے لیئے فرض اور لازم قرار دیا گیاہے۔حضور ﷺ نے فرمایا ”جس شخص نے ایسا حج کیا کہ اس میں گناہ اور بے حیائی کا کوئی عمل نہ کیا گیا ہو تو حج سے ایسے واپس لوٹے گا جیسے آج پیدا ہوا ہو“۔یعنی اس کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے اور وہ بالکل معصوم بچے کی طرح پاک و صاف ہوجائے گا۔حج میں دونوں عبادات یعنی مالی عبادت اور بدنی عبادت کا اشتراک ہے۔اس لیئے فقہائے اُمت نے اس عبادت کو مشترک عبادت یا جامع العبادات بھی قرار دیا۔اس عبادت کی ادائیگی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بندے ایک محبوبانہ اور عاشقانہ شان میں ہوتے ہیں۔اس لیئے یہ عبادت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔اس عبادت کی شان اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اتنی عظیم فرمائی کہ اس میں ایک خاص لباس کی شرط عائد فرمادی تاکہ انسانی تقابل اور تفاخر کے تمام دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بند ہوجائیں اور لوگ اس ایک طرز پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوجائیں جس طرح قیامت کے د ن میدان حشر میں تمام ارواح کا اجتماع عظیم ہوگا۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: اسلامی کیلنڈرر کا آغاز تاریخی حقائق کی روشنی میں

حج کی مصلحتیں بے شمار اور اس کے فوائد ان گنت ہیں۔سب سے بڑا اور عظیم نکتہ جس پر ادائیگی حج کے دوران زور دیا گیا ہے۔وہ توحید الہیٰ کی درست شناخت ہے۔حج ہر قسم کے شرک کی نفی کرتا ہے اور انسان کو خدائے وحدہ کی عبادت کا درس دیتا ہے۔اگر چشم بصیرت سے دیکھا جائے تو اسی توحید کے اندر خود انسانی شخصیت کی عظمت اور احترام کا راز پوشیدہ ہے۔تاریخ کے ہر دور میں طاغوتی طاقتیں روپ بدل بدل کر اپنی پوجا کرواتی رہی ہیں اور انسانی شرف ووقار کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتی رہی ہیں۔یہ بت کہیں ظالم اور جابر بادشاہوں اور شہنشاہوں کی شکل میں انسانیت پر مسلط ہوئے کہیں وطن پرستی اور نسل پرستی کے تعصبانہ جذبے کا روپ دھار کر ظاہر ہوئے،موجودہ زمانے میں اس طاغوتی و شیطانی روح نے استکباری طاقتوں کی اجتماعی شکل میں جنم لیاہے۔مادی طاقت کے بل بوتے پر سیاسی ریشہ دوانیوں کے سہارے نام نہاد سپر طاقتوں نے دنیا کی کمزور اور پسماندہ اقوام کو اپنے پنجے میں دبوچ کر انہیں سیاسی اور معاشی مقاصد کے حصول کے لیئے اپنا آلہ کار بنا رکھا ہے۔آج دنیا بھر میں بہت سی بے بس اقوام کے معاشی وسائل اور قدرتی ذرائع طاقتور قوموں کے مفاد میں بے دریغ استعمال ہورہے ہیں۔توحید پرست، ملت مسلمان کو حج کی عظیم الشان عبادت سے ان استعماروں قوتوں کی سرکوبی کا سبق ازسرنو پڑھ کر وقت حاضر کے ان بتوں کو پاش پاش کردینا چاہیئے تاکہ کروڑوں بندگان خدا کو سیاسی غلامی اور معاشی استحصال سے نجات حاصل ہو سکے۔

حج کی دوسری بڑی تعلیم یہ ہے کہ حج صحیح معنوں میں انسانوں کے درمیان سے ہر قسم کی تفریق مٹا کر انہیں یگانگت کی ایک لڑی میں پروتا ہے۔دنیا کے کونے کونے سے آنے والے مسلمان جو مختلف لباس اور وضع قطع رکھتے ہیں مگر بیت اللہ کی حدود میں قدم رکھتے ہی اَن سلے کپڑے کا ایک سادہ سا لباس زیب تن کر لیتے ہیں اور اس طرح انسانوں کے درمیان تفریق و امتیاز کی تمام خود ساختہ دیواریں گرادیتے ہیں اور اتحاد بین المسلمین کی لڑی میں منسلک ہوجاتے ہیں۔صحن کعبہ میں انسانوں کا یہ سمندر ایک ہی رنگ میں رنگا ہو ا خدائے وحدہ لاشریک کی عباد ت کرتا ہوا اسلامی اتحاد کا ایک ایسا روح پرور نظارہ پیش کرتا ہے۔جس کی نظیر دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی۔

حج کے عظیم الشان اجتماع کے ذریعے اسلامی معاشرہ کے افراد کو جو اہم ترین ثمرہ ہر سال حاصل ہوتا ہے۔اگر اسے ہم مختصر جملے میں بیان کرنا چاہیں تو ہم کہیں گے کہ زائرین بیت اللہ شریف میں حج کے موقع پر جو اعمال اور مناسک بجا لاتے ہیں اور اس موقع پر جن اخلاقی اقدار کو وہ عملی جامہ پہناتے ہیں۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد ان تمام امور کو زائرین بیت اللہ تاعمر فراموش نہیں کر پاتے بلکہ حج کے بعد جب وہ اپنے اپنے ملک میں واپس پہنچتے ہیں تب بھی انہی اعمال کو اپنانے کی کوشش اور سعی کرتے ہیں تاکہ اس طرح ان کے اعمال و اقدار کا اثر و نفوذ ہمیشہ کے لیئے ان کی زندگیوں میں جاری و ساری رہ سکے۔ چنانچہ فطری امر ہے کہ حج کو اگر اس کی حقیقی روح اور فلسفہ کے عین مطابق اسلامی معاشرے کے افراد کی انسانی اور اسلامی شخصیت کو سنوانے کے مرکز میں تبدیل کر دیا جائے تو پھر اسلامی معاشرے میں مکمل طور پر اس عظیم عبادت کے گہرے اثرات مرتب ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔

ہر مسلمان کو چاہیئے کہ وہ حج کے حقیقی مقاصد کو ضائع نہ ہونے دے،نیز اس بات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھے کہ یہ فریضہ کسی حالت میں بھی اپنے حقیقی خدوخال سے محروم نہ ہونے پائے کیونکہ حج کو اس کی اصل راہ سے منحرف کرنا یا اسے اس کے حقیقی مقام و منزلت سے محروم کردینا اسلام کی بنیادی تعلیمات اور فلسفہ سے انحراف کے مترادف ہے۔ حج اسلامی معاشرے کی تعمیرو ترقی میں جو بھرپور کردار ادا کر سکتا ہے،اس کے بجائے حج کو محض ایک ایسے فریضہ کی شکل دیناجس کے اعمال کا کوئی مقصد ہی نہ ہو۔بالکل اسی طرح ہے جس طرح ہم آج کل عصرِ حاضر میں دیکھ رہے ہیں کہ ہر سال دنیائے اسلام سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد فریضہ حج ادا کرنے کے لیئے عازم مکہ ہوتی ہے لیکن یہ حج کسی طرح بھی ان کی سیاسی،ثقافتی،اقتصادی اور اخلاقی زندگی میں تبدیلی پیدا نہیں کر پاتا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 24 اگست 2017 کے شمارہ شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں