Anti Encroachment Waseem Akhter

تجاوزات کی سیاست یا سیاست کی تجاوزات

سیانے کہتے ہیں اور یقینا بالکل درست ہی کہتے ہیں کہ ہر کام کو انجام دینے کے لیے ایک معین و معروف طریقہ کار ہوتا ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ آیا یہ کام اپنے اُس منطقی انجام تک پہنچ سکے گا بھی یا نہیں جس کا مقصد ِ وحید کام شروع کرنے والے کے ذہن میں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی کام کو کرنے کے لیئے طریقہ کار کو طے کرنے کا عمل ہمیشہ کام شروع کرنے سے پہلے کیا جاتا ہے نہ کہ کام کا آغاز کرنے کے بعد۔اگر خدانخوستہ عجلت پسندی یا تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے کسی اہم ترین کام کو انجام دینے کا بیٹرہ تو اُٹھالیا جائے مگر اس حوالے سے درست طریقہ کار طے نہ کیا جائے تو غالب امکان یہ ہی ہے کہ اچھے سے اچھا کام بھی کام کے کرنے والوں یا اس کا حکم دینے والوں کو متنازعہ فی بھی بناسکتاہے۔بدقسمتی سے یہ ہی کچھ آج کل سندھ میں ”انسدادِ تجاوزات آپریشن“ کے مستحسن کام کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔قصہ مختصر یہ ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے چند ہفتے قبل ایک حکم نامہ جاری کیا تھا۔ جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ سندھ کی تمام اہم شاہراؤں کو غیر ضروری تجاوزات اور ناجائز قبضوں سے نہ صرف پاک کیا جائے بلکہ کسی بھی طاقت ور سیاسی یا کاروباری شخصیت کی پروا کیئے بغیر اس کام کو غیر جانبدارانہ انداز میں بالکل یکساں سطح پر انجام دیا جائے۔

غور کیا جائے تو یہ ایک سادہ سا حکم نامہ تھا جس پر اگر اس کی روح کے عین مطابق عمل کرنے کی کوشش کی جاتی تو کچھ بعید نہیں تھا کہ اب تک تجاوزات اور قبضوں کے خاتمہ کا یہ کام پورا بھی ہوچکا ہوتا یا پھر اپنے آخری مراحل میں ہوتا۔مگر ستم ظریفی دیکھیئے کہ سندھ کی تین بڑی سیاسی جاعتیں اس ایک کام کو گزشتہ کئی ہفتوں سے بیک وقت اپنی اپنی خود ساختہ سیاسی تعبیر کی روشنی میں انجام دینے میں لگی ہوئی ہیں اور دیکھنے والوں کو لگ ایسا رہا کہ جیسے سندھ میں ”انسدادِ تجاوزات آپریشن“ نہیں ہورہا بلکہ سندھ کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین کوئی زبردست قسم کا سیاسی معرکہ جاری ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سیاسی معرکہ میں ہرسیاسی جماعت کی طرف سے پوری کوشش کی جاری ہے کہ تجاوزات کی آڑ میں اپنے سیاسی مخالفین کو جس قدر کچل سکتے ہیں کچل دیں،نہ معلوم تجاوزات کی آڑ میں اپنی اپنی سیاست چمکانے کا ایسا سنہری موقع پھر دوبارہ سے ان کے ہاتھ آسکے یا نہیں۔

حالانکہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آف پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات آپریشن کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی حالیہ سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں بالکل صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ”ہم نے گھروں کو توڑنے کا تو حکم نہیں دیا،آپ خود کررہے ہیں تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں“۔چیف جسٹس صاحب کے یہ ریمارکس واضح کرتے ہیں کہ سندھ بھر میں تجاوزات کے نام پر بہت کچھ اپنی مرضی سے بھی کیا گیا ہے نہ کہ اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر۔اب وہ ایک الگ بات ہے کہ ”انسدادِ تجاوزات آپریشن“ کی آڑ میں کیئے جانے والے ہر اقدام کواعلیٰ عدلیہ سے زبردستی منسوب کرنے کا مذموم و منفی پروپیگنڈا جان بوجھ کر صرف اس لیے کیا جارہا تاکہ تجاوزات آپریشن میں زیادہ سے زیادہ سیاسی مفادات حاصل کیئے جاسکیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ایک سیدھے سادے سے حکم کو سیاست کی نذر کردینا ایک ایسی کوشش جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

دورنگی سیاستِ دوراں تو دیکھیئے کہ سندھ حکومت کے نزدیک ہر وہ علاقہ ناجائز تجاوزات اور قبضوں کا گڑھ ہے جہاں سے اُسے حالیہ انتخابات میں خاطر خواہ ووٹ نہ مل سکے،جبکہ ایم کیو ایم کے نزدیک اصل ناجائز تجاوزات اور قبضے اُن علاقوں میں کیئے گئے ہیں جہاں سے 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اُمیدوار جیت گئے تھے اور دوسری طرف اگر پی ٹی آئی سندھ کے رہنماؤں کے بیانات سنے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل ناجائز تجاوزات اور قبضے تو شروع لیاری سے ہوتے ہیں اور ختم بلاول ہاؤس کی دیوار پر جاکر ہوجاتے ہیں۔سندھ کی اِن تین بڑی سیاسی جماعتوں کی آپس میں جاری الزامات کی اس دھکم پیل کے درمیان بے چاری غریب عوام بُری طرح پس رہی ہے جوکبھی تو ایم کیوایم کو ووٹ نہ دینے کی وجہ سے اپنی دُکانوں اور گھروں سے بے دخل کی جارہی ہے اور کبھی پاکستان پیپلزپارٹی کے اُمیدواروں پر اعتماد کا اظہار نہ کرنے کی پاداش میں اپنی ٹوٹی ہوئی دُکانوں کے ملبہ پر بیٹھ کر دسمبر کی یخ بستہ سردی میں اپنے آنسو بہا رہی ہے۔حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ تجاوزات آپریشن میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والی ہر سیاسی جماعت کا رہنما روز شام کو میڈیا پر آکر ایک ہی اعلان کرتا ہے کہ ”انسدادِ تجاوزات آپریشن“ سے کسی غریب کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا مگر اس یقین دہانی کے باوجود بھی نجانے کیسے روزانہ ”متاثرین تجاوزات“ میں سینکڑوں غریب لوگوں کا مسلسل اضافہ ہوتاجارہاہے جبکہ اس کے مقابلے میں بااثر اور طاقت ور سیاسی حیثیت رکھنے والوں کو ایک اور بار پھر سے ”جائیداد کی امان“ دینے کا پروانہ اُن کے ہاتھوں میں تھما کر اُن کی طرف سے ماضی میں وصول کی گئیں ”سیاسی بخششوں“کا حساب بے باک کر دیا جاتاہے۔یہ صورت حال اندورنِ سندھ میں تو اور بھی زیادہ دلخراش ہے کیونکہ اندرون ِ سندھ کے شہروں میں تجاوزات کے خلاف ہونے والا آپریشن تو اس قدر ”چھان پھٹک“ اور ”دیکھ بھال“کر کیا جارہاہے کہ مجال ہے جو قبضہ مافیا کو ذرہ برابر بھی تکلیف پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہو،یعنی تجاوزات کے خلاف کیئے جانے والے آپریشن میں بھی اربابِ اختیار حد سے زیادہ تجاوز کر رہے ہیں۔آج کی جدید سیاسی اصطلاح میں اسے کہتے ہیں ”تجاوزات کی سیاست“ یا”سیاست کی تجاوزات“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 20 دسمبر 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں