eid-ul-fitar-festival-and-cronavirus-3rd-wave-in-pakistan

عید الفطر کا پرمسرت تہواراور کورونا

عید الفطر کا تہوار مسلمانوں کے لیے خوشی و مسرت کا ایک عظیم الشان دن ہے۔ عید کا لفظ ”عود“ سے مشتق ہے، جس کا معنیٰ ہے، ”لوٹنا“، عید ہر سال لوٹتی ہے اور اسکے لوٹ کر آنے کی اہلِ مسلم کی جانب سے شدید خواہش کی جاتی ہے۔جبکہ ”فطر“ کا معنیٰ ہے، ”روزہ کھولنا یا روزہ کا اختتام کرنا“۔ چونکہ عید الفطر کے روز،فرض روزے رکھنے کا سلسلہ مکمل طور پر موقوف ہوجاتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو فرض روزہ کی ادائیگی اور عبادتِ رمضان کا ثواب بطور انعام عطا فرماتے ہیں، لہذا اس دن کو اسی مناسبت سے ”عید الفطر“ قرار دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ دینِ اسلام نے عید الفطر کے موقع پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے آپس میں مل جل کر خوشیاں منانے کی اجازتِ عام دی ہے۔کئی احادیث کتب میں صراحت کے ساتھ مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں مشاہدہ میں آیا کہ مدینہ کے مقامی لوگ دو دنوں کو تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اہل مدینہ سے دریافت کیا کہ یہ دو دن کیسے ہیں جن میں وہ کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں؟ تو انصار نے جواب دیا کہ ہم لوگ زمانہ قدیم سے ان دونوں دنوں میں خوشیاں مناتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان دودنوں سے بہتر دو دن مقرر فرمائے ہیں،ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ۔ (ابوداؤد)

ایک دوسری حدیث میں روایت ہے کہ ”فرشتے عید الفطر کی رات کا نام ”لیلۃالجائزہ“(انعام واکرام کی رات) کے نام سے پکارتے ہیں اور جب مسلمانوں کی عید یعنی عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے، میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہے، جو اپنا کام بحسن و خوبی مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ایسے شخص کے لیئے بہترین جزاء یہ ہے کہ اس کو پورا اجرو ثواب عطا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے فرشتو! میرے مخلص بندو ں نے(روزوں کی ادائیگی کرکے) اپنا فرض ادا کیا اور پھر وہ (نماز عید کی صورت میں) دعا کے ذریعے میری جانب راغب ہوئے ہیں، پس! مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں اِن کی دعاؤں کو ضرو ر قبول کروں گا۔ پھر اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے: بندو! تم گھروں کو لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بد ل دیا۔ پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) لوٹتے ہیں حالانکہ اُنکے گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں“۔یادرہے اَب کی بار عیدالفطر،کورونا وائرس کی تیسری خطرنک لہر کے باعث من حیث القوم ہم سے خصوصی احتیاط اور بندوبست کا تقاضہ کررہی ہے۔ اس ضمن میں چند رہنما گزارشات پیش خدمت ہیں تاکہ قارئین اِن چیدہ چیدہ نکات پر خصوصیت کے ساتھ عمل پیرا ہوکر عیدالفطر کی خوشیوں کو کورونا وائرس کی بدنظری سے حتی المقدور محفوظ ومامون بناسکیں۔

نیا لباس،نیا ماسک
بلاشبہ ہمارے زرق،برق،صاف ستھر ے اور قیمتی لباس عیدالفطر کی خوشیوں کو خوب بڑھاوا دیتے ہیں،خاص طور پر بچے اورنوجوانوں کے نزدیک تو عیدالفطر کا تمام تر مفہوم اور دلکشی ہمیشہ سے ہی فقط خوب صورت،دیدہ زیب اور بیش قیمت پہناوے سے ہی عبارت ہوتی ہے۔لیکن چونکہ رواں برس عید الفظر کورونا وائرس کی تیسری انتہائی مہلک اور جان لیوا لہر کے جلو میں وارد ہوئی ہے۔اس لیئے ہم پر لازم ہے کہ نئے لباس کے ہمراہ،ایک عدد نیا ماسک بھی اپنے خوب صورت پہناوے کا لازمی جز بنالیں۔ نیز ماسک پہننے کی ترغیب اپنے عزیز از جان پیاروں کو بھی ضرور دیں۔ دراصل کورونا وائرس کی تیسری لہر کی ہلاکت خیزی سے خود کو اور دوسروں کو بچانے کا سب سے سہل اور آسان راستہ یہ ہی ہے کہ عوام الناس عیدالفطر کے تینوں روز اور ممکن ہوسکے تو اس کے بعد بھی اپنے چہرے کو ماسک سے ہمہ وقت ڈھانپ کر رکھیں۔

یادرہے کہ عیدالفطر کے پرمسرت ایام میں گھر سے باہر جانے پر ہی نہیں بلکہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی چہرے کو ماسک سے ڈھانپ کر رکھیں۔کیونکہ عید الفطر کے تہوار کے ایام میں اہل محلہ سمیت عزیز واقارت کا خوب آنا،جانا لگارہے گا اور کورونا وائرس کے وبائی حالات میں کوئی بھی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتاہے کہ ہماراکون سامہمان اور ملنے والا، خاموش دشمن کورونا وائرس سے متاثر ہے اور کون نہیں؟۔لہٰذا حفظِ ماتقدم کے طور پر گھر پر یا گھر سے باہر جس کسی سے بھی کم فاصلے سے ملیں، یا زیادہ فاصلہ سے ملاقات کریں بہر حال سب سے پہلے یقینی بنائیں کہ ماسک سے آپ کا چہرہ ڈھکا ہوا ہو۔اچھی بات یہ ہے کہ اَب نت نئے ڈیزائن کے فیشن ایبل ماسک بھی انتہائی ارزاں قیمت پر فروخت کے لیئے دستیاب ہیں۔ یعنی ماسک کورونا وائرس سے تحفظ کے ساتھ ساتھ بطور فیشن بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ بلکہ ہمارا مخلصانہ مشورہ تو یہ ہوگا کہ قیمتی عیدی کے ساتھ خوب صورت ماسک بھی بطور تحفہ اپنے پیاروں کو ضرور دیں۔

مسجد پر عید گاہ کو ترجیح دیں
عید الفطر کی نماز دو وجوہات کی بناء پر دین ِ اسلام کے بنیادی شعائر میں شامل ہے۔اوّل یہ کہ عید الفظر کی اجتماعی نماز سے مسلمانوں کی شان و شوکت اور قوت کا اظہار ہوتاہے اور دوم،عید کی نماز پڑھنا ایسے مقام پر واجب ہوجاتی ہے،جہاں جمعہ قائم کرنے کی شرائط پائی جاتی ہوں۔ تاہم جمعہ اور عید کی نماز کی شرائط میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جمعہ کے درست ہونے کے لیے خطبہ شرط ہے، جب کہ عید کی نماز کے لیے خطبہ شرط نہیں، سنت ہے۔نیز اسی طرح عید الفطر کی نماز کے لیے جماعت کا ہونا بھی شرط ہے۔لیکن گزشتہ برس دنیا میں کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے باعث فقہائے کرام نے عمررسیدہ افراد کو گھر میں انفرادی طور عیدالفطر پڑھنے کی شرعی اجازت مرحمت فرمائی ہے اور عید کی نماز کے لیے امام کے علاوہ ایک مرد کا ہونا کافی قرار دیا گیا ہے۔یعنی اگر کسی علاقے میں لاک ڈاؤن کے باعث عید کی نماز عید گاہ میں بھی پڑھنا ممکن نہ ہو تو کم از کم دو افراد گھر،گھر کی چھت، صحن یا بلڈنگ کی پارکنگ وغیرہ میں جمع ہوکر مناسب فاصلہ رکھ کر پڑھ سکتے ہیں۔جبکہ علمائے کرام نے محلہ کی چھوٹی سی مسجد میں کہ جہاں ایس او پی پر عمل پیرا ہونا قطعی ناممکن ہو، عید الفطر کی نماز پڑھنے کے بجائے،عید گاہ میں ادائیگی کی خصوصی تاکید بھی فرمائی ہے۔ ان خصوصی انتظامی ہدایات کے پیش نظر کم و بیش ہر ضلعی حکومت نے عید گاہ میں عبدالفطر کے اجتماعات تمام تر احتیاطی تدابیر یعنی ایس او پی کے تحت منعقد کرنے کا اہتمام کیا ہے۔

لہٰذا عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کے لیئے بہر صورت عیدگاہ کو ترجیح دی جائے۔ویسے بھی مسجد میں عید الفطر کی نماز پڑھنا خلافِ سنت ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ رہی ہے کہ عید کی نماز آبادی سے باہر کھلی جگہ میں ادا فرماتے تھے، خلفائے راشدین کا بھی ہمیشہ اسی مستحسن طریق پر عمل رہا ہے۔ اسی لیے علماء اور فقہاکرام نے بغیر کسی عذر کے مسجد میں عید کی نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ (الشرح الممتع: 5,162)۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحرا اور میدان میں نمازِ عید پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ (مجمع الزوائد، جلد2،ص602)۔سلف صالحین کے معمولات گواہ ہیں عیدالفطر کی نماز کی ادائیگی کے لیئے سب سے مناسب مقام عید گاہ ہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ معروف عالم دین اور محقق علامہ محمد یوسف لدھیانوی ؒ کے ایک فتاوی کے مطابق عید الفطر کی نماز اگر کسی عذرِ شرعی مثلاً سخت لاک ڈاؤن وغیرہ کی وجہ سے پہلے دن ادا نہیں کی جاسکے تو دوسرے دن زوال سے قبل تک ادا کی جاسکتی ہے، البتہ تیسرے دن ادا کرنے کی اجازت نہیں، تاہم عید الاضحی کی نماز پہلے یا دوسرے دن کسی عذر کی وجہ سے ادا نہ کی جاسکے تو تیسرے دن زوال سے قبل تک ادا کرنے کی اجازت ہے۔

میٹھے کے ساتھ کچھ قہوہ ہوجائے
ہمارے وطن عزیز پاکستان میں عید الفطر کو ”میٹھی عید“ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔عیدالفطرکو میٹھی عید کہنے کی بنیادی وجہ تسمیہ تو عید پر ہر گھر میں ذوق و شوق کے ساتھ تیار کیئے جانے والے انواع و اقسام کے میٹھے میٹھے پکوان ہی ہیں۔جیسے سویاں،کھیراور شیر خورماوغیرہ چند ایسے خاص الخاص روایتی میٹھے پکوان ہیں،جن کے بغیر میٹھی عید کا مزہ ادھورا ہی سمجھا جاتاہے۔ لہٰذا میٹھی عید کے موقع پر کم و بیش ہر گھر کا سب سے پہلا پکوان تو میٹھا ہی ہوتا ہے۔لیکن بعض طبی ماہرین کا خیال ہے کہ اس میٹھی عید پر اپنے پسندیدہ میٹھے پکوان کے ساتھ اگر چائے،کافی اور غیر معیاری بازاری مشروبات کے بجائے قہوہ پینے کی عادت کو فروغ دیا جائے تو اس طرح ہم سب وبائی مرض کووڈ 19 کے مضر اثرات کا زیادہ موثر انداز میں مقابلہ کرپائیں گے۔

دراصل قدرتی اور فطری غذاؤں کا زیادہ سے زیادہ استعمال انسانی جسم میں موجود مدافعتی نظام کو طاقت ور بناتاہے اور یہ بات پوری طرح تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ اور روک تھام میں انسان کا مدافعتی نظام کلیدی کردار ادا کرتاہے۔ چونکہ قہوہ انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو طاقت ور بنا تاہے۔اس لیئے کورونا سے بچاؤ کا سب سے آسان اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ قہوہ خاص طور پر ادرک کا قہوہ پیا جائے۔کیونکہ ماہرین غذائیت کا ماننا ہے کہ ادرک anti-aging یعنی عمررسیدگی کی روک تھام کے ساتگ ساتھ قوتِ مدافعت اور نظام انہضام کے لیے بھی ایک بہت بہترین قدرتی مشروب ہے۔ ادرک کا قہوہ بنانے کے لیئے ایک چمچ کدوکش کی ہوئی ادرک کو چھ کپ پانی میں ابالیں یہاں تک کہ پانی آدھا رہ جائے،لیجئے! آپ کا ادرک کا صحت بخش قہوہ تیار ہے۔ اَب اس میں حسبِ ذائقہ شہد یا شکر ملا کر پی لیں اور اگر ممکن ہوسکے تو کم از کم ایک کپ قہوہ دون میں دو مرتبہ ضرور پئیں۔ یاد رہے کہ ادرک کا قہوہ دل اور خون کیساتھ ساتھ کینسر سیلز کے خاتمہ کے لیے بھی انتہائی مفید تصور کیا جاتاہے۔ علاوہ ازیں زیتون کے پتوں کے بے پناہ طبی فوائد اور اہمیت کے سبب ان پتوں کا قہوہ بھی بنا کر پیا جا سکتا ہے۔جبکہ سبز چائے میں دار چینی یا لونگ ڈال کر بھی قہوہ بنایا جاسکتاہے۔اس کے علاوہ ہرقسم کے قہوہ میں چٹکی بھر ہلدی یا ملٹھی کا استعمال نہ صرف قہوہ کو خوش ذائقہ بنادے گا بلکہ کورونا وائرس کی علامات کو ختم کرنے میں بھی زبردست معاونت فراہم کرے گا۔

عید پر ایک دوسرے سے ملیں ذرا ”اسمارٹ“انداز میں
مجھ خستہ دل کی عید کا کیا پوچھنا حضور / جن کے گلے سے آپ ملے اُن کی عید ہے۔معروف شاعر بیدم شاہ وارثی کے اس شعر سے بخوبی سمجھا جا سکتاہے ہے عیدالفطر تو نام ہی اپنے پیاروں کی دید اور اُن سے گلے مل کر عید کی ڈھیروں مبارک باد دینے کا ہے۔ مگر کیا کیجئے جب کورونا وائرس کی تیسری جان لیوا لہر کے خوف ناک سائے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیئے ہوئے ہوں توایسی پُر ہول کیفیت میں انسان اپنے عزیز از جان پیاروں کو دیکھنے اور ان سے میل، ملاقات کرنے سے قبل سو بار سوچتاہے۔ لیکن آج کے انسان کو اِس حوالے سے بہت زیادہ فکر اور پریشانی میں مبتلاء ہونے کی ضرورت اس لیئے بھی نہیں ہے کہ دورِ جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے طفیل ایک دوسرے سے میل ملاقات کے دیگر ڈیجیٹل ذرائع دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اپنے اسمارٹ فون کی مدد سے ویڈیو کال کرکے عید الفطر کی ایک دوسرے کو نہ صرف مبارک باد دے سکتے ہیں بلکہ اپنے عزیز و اقارب کو براہ راست اپنی خوشیوں میں شامل بھی کرسکتے ہیں۔نیز کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کی مدد سے کانفرنس کال کرنے کے لیئے کئی ایسے منفرد اور جدید سافٹ ویئرز اور موبائل اپلی کیشنز بھی دنیائے انٹرنیٹ پر موجود ہیں،جنہیں اگر کمپیوٹر یا موبائل فون میں انسٹال کرلیا جائے تو اُن کی مدد سے مختلف مقامات پر موجود آپ اپنے پانچ،چھ یا اس بھی زیادہ دوستوں کو بیک وقت ایک اسکرین پر باہم جمع کرکے براہ راست مجلس کا لطف بھی اُٹھاسکتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ویڈیو فون کالز اور کانفرنس کالز کرنے کی جتنی افادیت اور ضرورت آج ہے،شاید ہی کبھی ماضی میں رہی ہو۔

اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ عید الفطر خوشیاں منانے اور اپنی خوشیوں میں زیادہ سے زیادہ افراد کو شامل ِ حال کرنے کا تہوار ہے۔ لہٰذا،ہم سب کو ہی کورونا وبا کے مشکل ایام میں ایک دوسرے کا حددرجہ خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں ذرا سی بے احتیاطی یا لاپرواہی سے ہماری یا ہمارے کسی عزیز دوست کی قیمتی جان کو کووڈ 19 جیسی موذی بیماری کے خطرے میں ڈالنے کا سبب نہ بن جائے۔ ہمیں کامل اُمید ہے کہ اگر اِس عیدالفطر،طبی ماہرین کی جانب سے مشتہر کی گئی بظاہر مختصر اور بے ضرر سی تجاویزکوخوش دلی کے ساتھ حرزجاں بنا لیا جائے تو یقیناکورونا وائرس کا مقابلہ کرنا ہمارے لیئے ذرا مشکل نہ ہوگا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 13 مئی 2021 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں