Donald Trump President

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی نااہلی کی زد میں۔۔۔!

تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ دنیا کے ہر ملک بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی سیاست میں ہمیشہ سے مداخلت کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا رہا ہے۔اسی لیئے دنیا کے جس ملک میں بھی الیکشن کے نتائج کسی کے لیئے حسب دلخواہ نہیں آتے تھے تو اُن کی طرف سے ایک ہی الزام عائد کیا جاتا تھا کہ انتخابی دھاندلی میں امریکی ملوث ہیں۔ایسے ہی کچھ تصورات ہم پاکستانیوں کے بھی ہمیشہ سے امریکہ کے بارے میں رہے ہیں۔ہمارے ہاں حکومتیں بنائی جائیں یا گرائیں جائیں،تحریکیں کامیاب ہوں یا ناکامی سے دوچار ہوں، الزام ہم نے بہرحال امریکہ پر ہی دھرنا ہوتا ہے۔صرف اپوزیشن ہی نہیں ہماری حکومتوں کو بھی اپنے خلاف ہونے والے ہر اقدام کے پیچھے امریکہ بہادر کا ہی ہاتھ نظر آتا ہے۔اس تمام صورت حال میں جب ہم یہ خبر سنتے ہیں کہ امریکی انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو ہمیں یہ خبر کچھ جھوٹی سی،جھوٹی سی لگتی ہے۔ہمیں یقین ہی نہیں آتا کہ امریکی انتخابات میں امریکہ کے علاوہ بھی کوئی دھاندلی کر سکتا ہے اور دھاندلی بھی ایسی جس کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص جس سے بظاہر پورا امریکہ خائف نظر آتا ہو صدارتی منصب پر فائز ہوجائے۔بہرحال ایک بات طے ہے کہ ہمارے نزدیک امریکی انتخابات میں دھاندلی کی خبریں کتنی ہی غیر مصدقہ یا ناقابل اعتبار کیوں نہ ہوں مگر امریکی عوام کے لیئے یہی آج کا سب سے بڑا سچ ہے اورحالات و قرائن اشارہ دیتے ہیں کہ اب وہ وقت دور نہیں جب یہی سچ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیئے نااہلی کی وہ تیز دھاری تلوار بن جائے گا جس کے مہلک وارسے بچنا امریکی صدر کے لیئے آسان نہیں ہوگا۔جس کی پہلی ابتداء امریکا کے سابق مشیر قومی سلامتی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی مائیک فلین کی عدالت میں کیئے جانے والے اس اعتراف سے ہو گئی ہے کہ”انہوں نے دوران تفتیش روس سے اپنے تعلقات کے معاملے پر ایف بی آئی سے جھوٹ بولا تھا“۔ یہ خبر سامنے آتے ہی امریکا کی اسٹاک مارکیٹس میں زبردست مندی دیکھی گئی ہے۔ اس کیس میں مائیک فلین وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں اور ان کے جھوٹ بولنے کے اعترافی بیان کے بعد نئے سوالات پیدا ہوگئے ہیں کہ کیا ٹرمپ کے داماد جیراڈ کشنر بھی روس کے ساتھ رابطوں میں شامل تھے۔ امریکہ کی وفاقی کورٹ کے سامنے فلین نے اعتراف کیاہے کہ”جنوری میں ایف بی آئی کے تحقیقات کاروں نے ان سے تفتیش کی جس میں انہوں نے روسی سفیر سے ہونے والی اپنی گفتگو کے بارے میں جھوٹا بیان دیا“۔ مائیک فلین نے گزشتہ سال دسمبر میں ٹرمپ کے صدارت سنبھالنے سے قبل روسی سفیر سرگئی کسلیاک کے ساتھ پانچ ملاقاتیں کیں اور روس پر پابندیوں کی معلومات پر تبادلہ خیال کیا۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ 2016 کے امریکی صدارتی الیکشن میں مبینہ روسی مداخلت کے حوالے سے امریکہ میں تحقیقات وسیع تر پیمانے پر ہورہی ہیں اور مائیک فلین ٹرمپ حکومت کے پہلے عہدے دار ہیں جنہوں نے روس سے رابطوں کا اعتراف کیا ہے۔ اسے ڈولڈ ٹرمپ کے سیاسی تابوت میں پہلی کیل بھی قرار دیا جارہاہے۔ مائیک فلین کو مشیر قومی سلامتی کے عہدے پر تعیناتی کے ایک ماہ بعد ہی فروری میں برخاست کردیا گیا تھا۔بر خاستگی سے چند ہفتے پہلے امریکی محکمہ انصاف نے وائٹ ہاؤس کو خبردار کردیا تھا کہ مائیک فلین نے روسی حکام کے ساتھ اسی وقت نجی حیثیت میں مذاکرات شروع کردیئے تھے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کا عہدہ سنبھالا بھی نہیں تھا۔ محکمہ انصاف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بات کی بنیاد پر فلین کو بہ آسانی بلیک میل کیا جاسکتا ہے جو امریکی مفادات کیلیے اچھا نہیں ہوگا۔یہی بات امریکہ کی قائم مقام اٹارنی جنرل سیلی ییٹس بھی کہتی رہی تھیں جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی حکم نامے کی خلاف ورزی پر برطرف کردیا تھا۔ ییٹس کا کہنا تھا کہ فلین نے امریکہ میں روسی سفیر سے اپنے رابطوں کی نوعیت کے بارے میں وائٹ ہاؤس کو گمراہ کیا تھا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان روابط کی بنیاد پر انہیں بلیک میل کرکے اہم قومی فیصلے بھی تبدیل کروائے جاسکتے ہیں۔
اس معاملہ کی سنگینی اور اس ضمن میں ہونے والی تحقیقات کی حساسیت کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے دنیا کی تین سب سے بڑی ٹیک کمپنیوں فیس بک،ٹویٹر اور الفابیٹ جو کہ گوگل کی پیرنٹ یعنی سرپرست کمپنی ہے کو طلب کرلیا ہے کہ وہ بھی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کے اگر کوئی ثبوت ہیں تو مہیا کریں۔یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان ٹیک کمپنیوں کی طرف سے کون کون کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر مانگی گئی تفصیلات مہیا کرے گا۔فیس بک نے تصدیق کی ہے کہ واقعی انہیں امریکی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے طلبی کا سمن موصول ہواہے۔جس میں اُن سے اس بات کی وضاحت مانگی گئی ہے کہ سوشل میڈیا اور آن لائن اشتہارات پر روس یا روسی شہریوں کی طرف سے اثرانداز ہونے کے اُن کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو پیش کیئے جائیں اس کے ساتھ سوشل میڈیا پر”فیک نیوز اسٹوریز“کی بھی مکمل تفصیلات مانگی گئی ہیں جو صدارتی الیکشن کے دوران انٹرنیٹ پر وائرل کی گئیں تھیں۔فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ نے کہا ہے کہ”وہ اور ان کی کمپنی امریکی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے ساتھ مکمل تعاون کریں گی“۔جبکہ ٹویٹر اور گوگل انتظامیہ نے کمیٹی کے سامنے پیشی کے حوالے سے کھل کے کسی بھی قسم کی گفتگو کرنے سے احتراز کیا ہے لیکن ذرائع کادعویٰ ہے کہ ٹویٹر اور گوگل انتظامیہ نے سینٹ کی کمیٹی کے سامنے وہ تمام ستاویزی ریکارڈ مہیا کرنے کا ارادہ کرلیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ واقعی امریکی صدارتی الیکشن میں روسی خفیہ ایجنسی نے اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔

جبکہ ایک امریکی نیوز چینل نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنر نے مائیک فلین کو روسی حکام سے رابطوں کی ہدایت دی تھی، جس کے بعد سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے ڈیموکریٹ ارکان نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوشنر سے بھی دوبارہ پوچھ گچھ کریں گے۔امریکہ کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کے دعوؤں کے بارے میں تحقیقات کرنے والے خصوصی تفتیش کار رابرٹ مولر نے فلین کے خلاف روس سے رابطوں کے الزامات عائد کیے تھے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہمارے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرح نااہلی کا بدنما داغ اپنی پیشانی پر لکھوانے والے ہیں؟۔اس کے لیئے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا امریکی آئین کے مطابق کسی صدر کو نااہل کیئے جانے کا امکان پایا جاتا ہے تو اس کا ایک سطر میں تو یہ ہی جواب دیا جاسکتا ہے کہ ہاں! کیونکہ امریکی آئین میں ”غداری، رشوت یا دیگر بڑے جرائم اور چھوٹے جرائم“ جنہیں Misdemeanors کہا جاتا ہے۔ کو ثابت ہونے کے بعد باآسانی امریکی صدر کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ امریکہ میں مواخذے کے ذریعے کسی صدر یا اہلکار کو عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ مواخذے کا قدم ایوان نمائندگان اٹھا سکتا ہے اور اس کی منظوری کے لیے صرف سادہ اکثریت کی ضرورت ہے۔ یہ بل بعد ازاں سینیٹ میں بھی پیش ہوتاہے لیکن وہاں عہدے سے ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ امریکی تاریخ میں دو صدور اینڈریو جانسن اور صدر بل کلنٹن کا امریکی ایوان نمائندگان میں نااہلی کی اس کارروائی کا سامنا کرچکے ہیں لیکن دونوں خوش قسمت رہے اور نااہلی کے کلنگ سے بال بال بچ گئے۔ان دو صدور میں ایک تو بل کلنٹن شامل ہیں جنہیں انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے اس کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے مونیکا لیونسکی سے اپنے تعلق کے بارے میں ناصرف جھوٹ بولا بلکہ مبینہ طور پر مونیکا کو بھی جھوٹ بولنے کی ترغیب دی۔ ان پر جو دو الزام لگے ان میں سے پہلے پر مواخذے کے حق میں 206کے مقابلے میں 228 سے فیصلہ ہوا۔ دوسرے الزام میں 212کے مقابلے 221 ووٹوں سے فیصلہ ہوا۔ اس وقت جائزوں کے مطابق بل کلنٹن کی شہرت 72 فیصد تھی۔ تاہم 1999 میں سینیٹ پہنچنے پر دوتہائی اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ دوسرے صدر جن کا مواخذہ ہوا وہ اینڈریو جانسن تھے۔ وہ 17ویں امریکی صدر تھے۔ ان کا مواخذہ 1868میں کیا گیا۔ امریکی سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک آنے والے دنوں میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا بھی مواخذہ یقینی ہے۔رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ان کی شہرت خطرناک حد کم ہو چکی ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے یروشلم میں امریکی سفارتخانہ منتقلی کا انتہائی غیر مقبول فیصلہ کیا۔اس فیصلہ کے ذریعے ٹرمپ نے متشدد اذہان رکھنے والے امریکیوں کو متاثر کرنے کی آخری کوشش کی ہے۔کیونکہ انتہائی غیر معمولی حالات ہی ٹرمپ کو اپنے مواخذہ اور پھر اسکے نتیجے میں ہونے والی دائمی نااہلی سے بچا سکتے ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ اچھی طرح جانتی ہے کہ یروشلم کو باقاعدہ اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ ہی دنیا میں کسی بڑے سانحہ کاسبب بن سکتا ہے۔اور پھر اس سانحہ کو بنیاد بنا کر ہی ڈونلڈ ٹرمپ امریکی عوام کی توجہ اپنی نااہلی کا سبب بننے والے مواخذہ سے ہٹا سکتا ہے۔ تاہم عملی طور پر یہ ہونا مشکل نظر آرہا ہے کیونکہ ٹرمپ کے اس فیصلہ نے حقیقی معنوں میں امریکہ کو دنیا بھر میں تنہا کردیا ہے۔جس کی وجہ سے ٹرمپ کے خود ساختہ پلان کے برخلاف اُلٹا اثر ہورہا ہے اور امریکی عوام میں رائے عامہ روز بہ روز ٹرمپ حکومت کے خلاف ہوتی جارہی ہے کیونکہ جو امریکن دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے آج وہ صرف اپنی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے سخت ترین تنقید کی زد میں ہیں اور عام امریکی اس تنقیدی رویے کو برداشت کرنے کا عادی نہیں ہے۔اس لیئے کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کے نااہل ہونے کے جتنی وجوہات آج پیدا ہوچکی ہیں وہ شاید پھر کبھی بھی نہ پیدا ہوں مثال کے طور پر روس کی جانب سے امریکی انتخابات میں مداخلت، ڈیموکریٹک پارٹی کے کمپیوٹر سسٹم کی ہیکنگ، ٹرمپ کی جانب سے روس کو ڈیموکریٹک پارٹی کی مزید ہیکنگ اور راز افشا کرکے نقصان پہنچانے کے اعلانیہ بیانات کے الزامات وا قعی سنجیدہ اور تشویشناک ہیں پھر مائیک فلین کے انتخابی مہم کے دوران اور ٹرمپ کی جیت کے بعد بھی مائیک فلین کے روس سے روابط بھی اس لئے جرم ہے کیوں کہ کوئی امریکی شہری اپنی ذاتی حیثیت میں امریکی سفارتکاری کیلئے کسی غیر ملک سے رابطے نہیں کرسکتا۔ نہ ہی امریکی حکومت کی جانب سے غیر ملکیوں سے مذاکرات یا سمجھوتہ نہیں کرسکتا جبکہ مائیک فلین کا کردار غیر شفاف ثابت ہو چکا ہے لہٰذا روس والا معاملہ ایسا ہے جس پر صدر ٹرمپ کی نااہلی یقینی ہے۔اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازعہ کردار کی وجہ سے یہ سوال امریکی اور بین الاقوامی میڈیا میں اکثر سامنے آ رہا ہے کہ امریکی صدر کے صدمے سے مرنے ٗ استعفیٰ دینے یا نااہلی کی صورت میں کون ان کی جگہ لے گا۔ایک امریکی نیوز ویب سائٹ نے اس سوال کا جواب قانون کی روشنی میں پیش بھی کر دیا ہے۔ جس کے مطابق اس قانون کو صدارتی جانشینی قانون کہا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے امریکی سیاسی فضا میں تکرار تب ہوئی جب 1792 میں اس قانون کا اطلاق کیا گیا جس کے مطابق امریکی صدر کے اچانک اس جہانِ فانی سے گزر جانے کی صورت میں سینٹ کے صدر کو ان کی جگہ صدر بنا دیا جائے گا۔اس قانون میں آخری ترمیم 2006 میں کئی گئی۔ اب اس فہرست میں 72سینٹ ممبران شامل ہیں۔ جو امریکی صدر کے اس دنیا سے اچانک گزر جانے یا نااہل ہونے کی صورت میں ان کی جگہ اپنے عہدے کے مطابق لے سکتے ہیں۔یعنی صرف ڈونلڈ ٹرمپ کے نااہل ہونے کا انتظار ہے ان کی جگہ لینے والوں کی امریکی قانون میں کوئی کمی نہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 04 جنوری 2018 کے شمارے میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں