Dharnay Ki Aakas Bail

دھرنے کی آکاس بیل۔۔۔۔!

مولانا فضل الرحمن اسلام آباد میں دھرنے کے چوتھے روز ہی آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور دورانِ تقریر ہی آب دیدہ ہوگئے۔گو کہ مولانا کے اردگرد کھڑے ہوئے انس نورانی اور محمود خان اچکزئی نے اِن کا ہاتھ تھام کر حتی المقدور کوشش کی کہ کسی طرح مولانا کی حوصلہ افزائی کر کے اُن کی دل جوئی فرماسکیں لیکن جب مولانا کافی کوشش کے باوجود بھی اپنی پرانی کیفیت کو بحال نہ کرسکے تو خاموشی کے ساتھ جلسہ گاہ سے رخصت ہوگئے۔ مولانا فضل الرحمن کے قریب ترین ساتھی بتاتے ہیں کہ مولانا کی طویل ترین سیاسی اور مذہبی جدوجہد میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی نے مجمع عام میں اُنہیں اِس قدر دل گرفتہ، مضطرب اور آنسوؤں سے تر دیکھا ہو ورنہ اِس واقعہ سے قبل مولانا کے متعلق عام تاثر یہ ہی پایا جاتا تھاکہ وہ انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنی شخصیت کو جذباتیت کے صیاد کے زیرِ دام آنے کی اجازت نہیں دیتے۔مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اِس بار ایسا نہ ہوسکا اور دھرنے کی مشکلات نے فقط چوتھے روز ہی مولانا فضل الرحمن کو آب دیدہ ہونے پر مجبور کردیا۔

شاید دھرنا بھی آکاس بیل کی طرح ہوتا ہے جو اپنی پرداخت و نشوونما کرنے والے مالک سے خراج لیئے بنا اُس کی جان نہیں چھوڑتا۔ اِس امر کی سب سے بڑی گواہی خود پاکستان کی سیاسی تاریخ دیتی ہے۔ جس کے مطابق اَب تک جس نے بھی اور جب بھی پاکستان میں دھرنے کی آکاس بیل کو سیاست کی منڈیر پر چڑھانے کی کوشش کی، آخر کار اُس کی اپنی ساری سیاست دھرنا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ مثال کے طور پر پاکستان کی تاریخ میں دھرنے کی اوّلین موجد جماعت، جماعت ِ اسلامی تھی اور اِس کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے پہلی بار پاکستان کی سیاست میں دھرنے کی آکاس بیل کو اُگانے کی کوشش کی تھی۔ بظاہر ابتداء میں دھرنے نے قاضی حسین احمد اور اُن کی جماعت کو فقیدا لمثال شہرت تو ضرور بخش دی تھی لیکن دھرنے کے مضر اثرات نے جماعت اسلامی کاسب سے بنیادی وصف یعنی احتجاج کی طاقت کو جماعت اسلامی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے چھین لیا اور ایک زمانے تک جائز،ناجائز بات پر احتجاج کرنے کی شناخت رکھنے والی جماعت اسلامی آج کل کسی جائز مسئلہ پر بھی احتجاج کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہوچکی ہے۔



امیرِ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری پاکستانی سیاست کے اُفق پر نمودار ہونے والی وہ دوسری سیاسی و مذہبی شخصیت تھی جنہوں نے دھرنے کی آکاس بیل کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں پھر سے اُگانے کی دو کامیاب ترین کوششیں کیں۔ خاص طور پر ڈاکٹر طاہرالقادری کا عمران خان کے ساتھ کیا گیا دوسرا دھرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ کا طویل ترین دھرنا تھا جو تین ماہ سے زائد مدت تک جاری رہا۔گو کہ اِس دھرنے نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو راتوں رات الیکٹرانک میڈیا کا سپر اسٹار تو ضرور بنا دیا لیکن یہ دھرنا خراج کے طور پر نہ صرف ان کی سیاست کوہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ہڑپ کرگیا بلکہ ان کی جماعت کی احتجاجی سیاست کا بھی جنازہ نکال گیا۔یاد رہے کہ چند ہفتے قبل ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستانی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرچکے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان کی جماعت منہاج القرآن جو کہ گزشتہ چالیس برسوں سے مینارِ پاکستان لاہور پر عالمی میلاد کانفرنس کا انعقاد کرتی آرہی تھی مگر اِس بار طاہرالقادری کے سیاسی کزن کی حکومت نے اُنہیں مینارِ پاکستان پر عالمی میلاد کانفرنس کا انعقاد کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا ہے۔ جس پر منہاج القرآن کی طرف سے چھوٹے موٹے احتجاج کا اعلان کرنے کے بجائے صرف ایک بیان جاری کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ ”اگر پنجاب حکومت اُنہیں مینارِ پاکستان پر میلاد کانفرنس کی اجازت نہیں دے گی تو وہ اس کانفرنس کو کسی اور جگہ منعقد کر لیں گے“۔ سیاسی بے چارگی اور بے مائیگی کی ایسی دگرگوں حالت کا اصل ذمہ دار بھی دھرنے کی آکاس بیل کو ہی قرار دیا جاسکتاہے۔

پاکستانی سیاست میں تیسری بار تحریک لبیک کے سربراہ محترم خادم حسین رضوی نے اسلام آباد کی فضاؤں میں پر تشدد دھرنے کے جملہ حقوق حاصل کر نے کی بھرپور کوشش اور اِس جدوجہد کا حتمی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مولانا خادم حسین رضوی کو اِن کے دوسرے دھرنے کے دوران انتہائی خاموشی کے ساتھ دھر لیا گیا اور جیل کی آہنی دیواروں کے پیچھے قید کردیا گیا۔ جب کئی ماہ کے بعد جیل سے اُن کی رہائی عمل میں آئی تو پاکستان کے سیاسی اُفق سے اُن کی سیاسی جماعت تحریک لبیک کا نام اور کام کسی حرفِ غلط کی طرح مکمل طور پر مٹایا جاچکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا خادم حسین رضوی نے حالات کے اِس غیر متوقع سیاسی جبر کو بغیر کسی چوں چراں کے ہنسی خوشی قبول کرلیا۔دھرنے کی فیض رسانی کے باعث آج کل مولانا خادم حسین رضوی اپنی جماعت تحریک لبیک کے پلیٹ فارم سے محفلِ میلاد اور محفل نعت کے اجتماعات تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔

دھرنے کی جس آکاس بیل نے پاکستان کی کئی قیمتی مذہبی رہنمااور سیاسی جماعتوں کو چوس کر ایک طرف پھینک دیا تھا۔آج کل اُسی دھرنے کی سیاست کُش آکاس بیل کے پودے کو مولانا فضل الرحمن نے اپنے چند ناعاقبت اندیش مشیروں کے مشورے سے یکم نومبر سے اسلام آباد میں ایک بار پھر سے اُگا دیا ہے۔ بظاہر تو مولانا کو بڑی اُمید تھی کہ صرف دو دن میں ہی اُن کے دھرنے کی وجہ سے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان استعفا دینے پر مجبور ہوجائیں گے لیکن ماضی میں ہونے والے دھرنوں کی روایت کے عین مطابق یہ دھرنا بھی آہستہ آہستہ اپنے تخلیق کار یعنی مولانا فضل الرحمن کے گر د ہی سیاسی شکنجہ کس چکا ہے۔یوں اَب مولانا مکمل طور پر دھرنے کی موذی آکاس بیل کے رحم و کرم پر ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اِس کا اندازہ خود مولانا فضل الرحمن کو بھی بخوبی ہوتا جارہاہے۔ جب ہی تو دھرنے میں وہ دورانِ خطاب اپنی آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کو بھی روک نہیں پارہے۔بس ہمیں تو آنے والے ایام میں یہ دیکھنا ہے کہ قاضی حسین احمدمرحوم،علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور مولانا خام حسین رضوی کے بعد دھرنے کے مابعد السیاسیات اثرات مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو کس عبرتناک انجام سے دوچار کرتے ہیں۔بقول جمال احسانی
حضورِ صبح بتلاؤ خراجِ شام کیا ہوگا
ہماری تیرہ بختی کا بھلا انجام کیا ہوگا

حوالہ : یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کے ادارتی صفحہ پر 07 نومبر 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں