coronavirus-china-virus

کورونا وائرس

چین ہمارا دوست ہے اور آج کل ہمارا یہ دیرینہ دوست ایک بہت بڑی ناگہانی و آسمانی آفت کی زد میں آیا ہواہے۔چین کے اِس مشکل وقت میں من حیث القوم ہم سب کی یہ بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سب پوری قوت کے ساتھ چین کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں۔ تاکہ چین کو اِس نازک وقت میں اپنے دشمنوں کی طرف سے جس منفی اور مذموم پروپیگنڈا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہے،اُسے ناکام بنایا جاسکے۔چین پر نازل ہونے والی آسمانی آفت کا نام ”کورونا وائرس“ ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 1018 تک پہنچ گئی ہے جبکہ تقریباً 43143 افراد میں اس بیماری کی تصدیق ہوچکی ہے۔ جبکہ 5000 سے زائد افراد تشویشناک حد تک بیمار ہیں۔دیگر ممالک میں بھی ”کورونا وائرس“ کے 400 سے زائد کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ جن میں تھائی لینڈ، امریکہ اور آسٹریلیا شامل ہیں لیکن اب تک چین سے باہر اِس موذہ وائرس کی وجہ سے کوئی موت نہیں ہوئی ہے۔ یہ مہلک وائرس گذشتہ برس دسمبر میں نمودار ہوا تھا۔وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے چین کے اکثر شہروں میں ٹرین سروس مکمل طور پرمعطل کردی گئی ہے اور چین میں سفر کرنے والے تمام افراد کے جسمانی درجہ حرارت کو باقاعدگی سے چیک کیا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی شخص میں وائرس کی موجودگی کا بروقت پتا لگایا جا سکے۔”کورونا وائرس“کا سب سے زیادہ شکار چینی شہر ووہان ہوا۔ لہذا چینی حکام کی جانب سے ایک کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر ووہان کے رہائشیوں کی شہر سے باہر نقل و حمل پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: کورونا کے بعد سیاسی احتجاج کی وبا؟

بلاشبہ ”کورونا وائرس“ کی آفت بہت بڑی ہے لیکن چین اِس سے نبرد آزما ہونے کے لیئے کتنا پرعزم ہے،اِس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ”کورونا وائرس“ سے نمٹنے کے لیئے چین نے ووہان شہر میں صرف چھ دن کی قلیل مدت میں ہسپتال تعمیر کرنے کا اعلان کر کے پوری دنیا کو حیران کرنے کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ چینی قوم عالمی میڈیا کے تمام تر منفی پروپیگنڈے کے باوجود ”کورونا وائرس“کو شکست دینے کے لیئے متحد ہے۔ چین کی سرکاری میڈیا کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہسپتال کے لیے 25 ہزار مربع میٹر علاقے میں کھدائی کا کام شروع ہو چکا ہے۔ چونکہ یہ ہسپتال ایک خاص وبا سے مقابلہ کرنے کے لیئے بنایا جا رہا ہے لہٰذا اس خصوصی اسپتال میں صرف”کورونا وائرس“ کے متاثرین کا ہی علاج کیا جائے گا۔ اسی لیے یہاں سخت سکیورٹی انتظامات بھی ہوں گے۔یاد رہے کہ بڑے سے بڑے منصوبے کو جلد سے جلد مکمل کرنے میں چین کا ریکارڈ ہمیشہ سے ہی شاندار رہا ہے۔ 2003 میں بھی چین نے بیجنگ میں سات دنوں کے اندر ہسپتال بنایا گیا تھا اور اب شاید اسی ریکارڈ کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 2003میں سارس کے متاثرین کی مدد کے لیے بیجنگ میں زیوتانگشان ہسپتال بنایا گیا تھا۔اس کی تعمیر کا کام سات دن میں مکمل کر لیا گیا تھا۔

چائنا ڈاٹ کوم میں شائع رپورٹ کے مطابق اس ہسپتال کو بنانے کے لیے تقریباً 4000 افراد نے دن رات کام کیا تھا۔اس ہسپتال میں ایکس رے کا کمرا، سی ٹی سکین کا کمرا، آئی سی یو اور لیبارٹری شامل تھے۔ ہسپتال کے ہر ایک وارڈ میں ایک باتھ روم تھا۔ہسپتال کی تعمیر کے دو ماہ بعد ملک بھر میں موجود تمام سارس متاثرین کا ساتواں حصہ اس ہسپتال میں داخل کردیا گیا تھا۔ چین کے میڈیا میں اسے ”طبی تاریخ میں معجزہ“‘ قرار دیا گیا تھا۔چین کی وزارت صحت نے اسے بنانے کا حکم دیا تھا اور دیگر ہسپتالوں سے نرسوں اور ڈاکٹروں کو وہاں بلایا گیا تھا۔ ان کے پاس متاثرین کی شناخت اور ان کے علاج کے لیے ضروری ہدایات کی لسٹ تھی۔جبکہ سارس کی وبا کے ختم ہونے کے بعد بیجنگ کے ہسپتال کو خالی کر دیا گیا تھا۔بیجنگ کے ہسپتال کی ہی طرح ووہان کا ہسپتال بھی عمارت بنانے کے لیے استعمال ہونے والے ’پری فیبریکیٹیڈ مٹیریئل‘ یعنی ’پہلے سے تیار شدہ اشیا‘ سے بنایا جائے گا۔چین ایسے کاموں میں غیرضروری دفتری طوالتوں اور معاشی رکاوٹوں کو پار کرنے اور ذرائع فراہم کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔اس کام کو وقت پر ختم کرنے کے لیے ملک بھر کے مختلف علاقوں سے انجینیئروں کو بلایا گیا ہے۔انجینیئرنگ کے کام میں چین بہت آگے ہے۔ تیزی سے اونچی عمارتیں بنانے میں اس ملک کا کوئی مقابلہ نہیں۔ شاید دنیا بھر کو یہ بات سمجھنے میں مشکل ہو لیکن چین کے لئے سب کچھ عین ممکن ہے۔

چین میں ”کوروناوائرس“ کی مہلک وباء پھوٹنے کے بعد پاکستان میں ہائی الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔اسلام آبادمیں انتظامیہ اس حقیقت سے مکمل طورپرباخبرہے پاکستانی اورچینی شہری دونوں ممالک میں سفرکرتے ہیں تویہ مہلک وائرس کسی بھی لمحے یہاں آسکتاہے۔چینی وزارتِ تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق15اپریل2019تک تقریباً 28023پاکستانی طلبہ چین میں زیرِ تعلیم تھے۔چینی وزارتِ تعلیم کے سرکاری ڈیٹا کے مطابق چین پاکستانی طلبہ کیلئے تعلیم حاصل کرنے کیلئے ترجیح بن چکی ہے تقریباً 7034 سکالرشپس پر پڑھ رہے ہیں۔ 2019میں چین میں زیرِ تعلیم طلبہ کے حساب سے پاکستان کانمبر تیسرا تھا۔60ہزار سے زائد چینی شہری پاکستان میں رہائش پزیر ہیں۔ اور ان کی بڑی تعداد پاک چین اقتصادی راہداری میں کام رہی ہے۔بہرحال خوش آئند بات یہ ہے کہ اَب تک پاکستان میں کرونا وائرس کا کوئی کیس ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ بظاہر سوشل میڈیا پر چند شر پسند عناصر کی جانب سے ”کورونا وائرس“ کے پاکستان میں داخلے سے متعلق افواہیں پھیلائی جارہی ہیں،تاہم حکومتِ پاکستان نے اِن تمام دعوں اور افواؤں کی سختی سے تردید کردی ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ”کوروناوائرس“ کا کوئی مریض موجود نہیں ہے۔

قارئین کی معلومات کے لیئے بتاتے چلیں کہ ”کورونا وائرس“ کا تعلق وائرسز کے اس خاندان سے ہے جس کے نتیجے میں مریض بخار میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ وائرس اس سے قبل دنیا میں کہیں بھی اور کبھی نہیں دیکھا گیا۔2003 میں چمگادڑوں سے شروع ہونے والا یہ وائرس بلیوں سے مماثلت رکھنے والے جانوروں میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں تک پہنچا۔ اس وائرس سے نظام تنفس شدید متاثر ہوتا ہے۔جبکہ وائرس کی علامات بخار سے شروع ہوتی ہیں جس کے بعد خشک کھانسی ہوتی ہے اور پھر ایک ہفتے کے بعد مریض کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔انسانوں میں ”کرونا وائرس“ کی افزائش کا دورانیہ ایک سے 14 دنوں کے درمیان ہے جس میں کسی شخص کو علامات ظاہر ہوئے بغیر بھی یہ بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔علامات یا میڈیکل ٹیسٹ کے بغیر کسی متاثرہ شخص کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ اسے ”کرونا وائرس“ کا مرض لاحق ہے۔ لیکن وہ اس کے پھیلاؤ کا سبب ضرور بن سکتا ہے۔ ”کرونا وائرس“ سے بچاؤ کے لیے نہ تو کوئی ویکسین ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص علاج ہے۔ابتدائی اطلاعات کو دیکھتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ متاثرین میں سے صرف ایک چوتھائی ایسے تھے جو شدید متاثر ہوئے اور ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر ایسے افراد تھے جو عمر رسیدہ تھے،یا جو پہلے ہی سے کسی دوسری بیماری کا شکار تھے۔چینی حکام نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس مچھلی منڈی میں ہونی والی سمندری جانداروں کی غیرقانونی خرید و فروخت کے دوران انسانوں میں منتقل ہوا ہو۔”کرونا وائرس“ سے بچنے کی مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں۔ اپنے ہاتھ بار بار دھوئیں اور اپنے ناک یا چہرے کو مت رگڑیں، احتیاط کریں اور باہر جاتے ہوئے ماسک پہن کر رکھیں، پرہجوم جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں، اگر آپ نے چین کے شہر ووہان کا سفر کیا ہے تو اپنا طبی معائنہ ضرور کرائیں،آخری اور سب سے اہم کہ اپنے ڈاکٹر سے ہرگز یہ بات مت چھپائیں کہ آپ نے حال ہی میں چین کے شہر ووہان کا سفر کیا ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 06 فروری 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں