coronavirus-3rd-wave-in-pakistan

کورونا وائرس کی واپسی

کورونا وائرس کی پاکستان میں تیسری لہر کی ہلاکت خیزی آخری حدوں کو چھورہی ہے لیکن ہم پاکستانی ابھی تک بدستور اپنی اُسی پرانی لہر میں ہیں کہ ”کورونا وائرس سے ڈرنا نہیں لڑناہے“۔لطیفہ ملاحظہ ہوکہ جب کورونا وائرس کی پہلی لہر آئی تھی تو ہم اس موذی وائرس سے ڈر،ڈر کر اور چھپ چھپ کر لڑ رہے تھے،دوسری لہر میں ہماری جھجھک کچھ کم ہوئی تو ہم نے کورونا کے بالکل عین سامنے آکر لڑنا شروع کردیا تھا لیکن اَب ماشاء اللہ سے ہم کورونا وائرس کی تیسری لہر سے خم ٹھونک کر دوبدو، پنجہ سے پنجہ ملاکر کسی ماہر پہلوان کی مانند آمادہ جنگ ہیں۔اسے دنیا ہماری بے خوفی سمجھے یا بے وقوفی،بہر حال ہمیں اس بات سے کوئی خاص سروکار نہیں ہے کیونکہ ہمیں تو بس! کسی بھی طرح کورونا وائرس سے ڈرنے کے بجائے لڑنا ہے۔ ویسے بھی من حیث القوم ہمارے لیئے یہ صورت حال انتہائی اطمینان بخش ہے کہ ساری دنیا کورونا وائرس سے ڈر رہی ہے اور ہم کووڈ 19 بیماری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے خوفی سے لڑ رہے ہیں۔

یقینا ہمارے قارئین ابھی تک نہیں بھولے ہوں گے کہ کورونا وائرس کے پہلی لہر کے خلاف لڑی جانے والی ہماری کثیر المقاصد ”وبائی جنگ“ کے سپہ سالار وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تھے۔واضح رہے کہ کورونا وائرس کے خلاف گزشتہ معرکہ میں انہیں سپہ سالار کے منصب پر وفاقی حکومت نے فائز نہیں کیا تھا۔بلکہ کچھ وبائی حالات کی سنگینی اور کچھ مراد علی شاہ کی اپنی کارکردگی نے انہیں اِس اہم ترین منصب پر متمکن کردیا تھا اور تمام پاکستانی قوم نے انہیں دل سے ”وبائی معرکہ“ کا سپہ سالار تسلیم بھی کرلیا تھا۔ یادش بخیر کہ دو چار،روز سے قرائن اور شواہد اس جانب بارِ دگر اشارہ فرما رہے ہیں وزیراعلی سندھ کورونا وائرس کی تیسری لہر کے خلاف بپا ہونے والے تازہ ترین معرکہ کے بھی سپہ سالار بننے کے لیئے بھرپور ”سیاسی ورک“ کر رہے ہیں۔

رواں ہفتہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے لائیو اسٹاک شعبے کے ذیلی ادارے سندھ انسٹیٹیوٹ آف اینیمل ہیلتھ کے افتتاحی تقریب سے خطاب کرنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ”این سی او سی میں کورونا وائر س کے انسداد کے حوالے دی گئی میری کوئی تجویز مسترد نہیں ہوئی۔میں نے انٹر سٹی ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دی تھی اور این سی او سی نے میر ی تجویز زیر غور لانے کی مکمل یقین دہانی کروائی ہے لیکن اگر وفاق نے بین الصوبائی ٹرانسپورٹ بند نہ کی تو ہم خود کردیں گے“۔سید مراد علی شاہ کے اِن الفاظ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلی بار کی طرح اس بار بھی کورونا وائرس کو شکست دینے کے لیئے وہ پوری طرح سے سنجیدہ ہیں۔

بس شاہ صاحب کے قول و فعل میں ذرا سی تبدیلی یہ آئی ہے کہ پہلی اور دوسری لہر کے دوران مراد علی شاہ، کورونا وائرس کے انسداد اور روک تھام کے لیئے جتنی گفتگو فرما یا کرتے تھے،ماسک پہن کر کرتے تھے لیکن آج کل وہ اکثر سرکاری تقریبات میں بغیر ماسک کے دکھائی دیتے ہیں۔مگر یہ احوال صرف وزیراعلی سندھ کے ہی نہیں ہے بلکہ وفاقی وزراء بھی ماسک پہننے کا تکلف کم کم ہی فرما رہے ہیں۔دراصل ہمارے حکومتی ادارے اور شخصیات کورونا وائرس کے انسداد کے لیئے وضع کردہ احتیاطی تدابیر ”ایس او پیز“ کو بھی اپنا بنایا ہوا، ایک ”سیاسی قانون“سمجھ بیٹھے ہیں، جسے وہ عوام پر تو بذور طاقت نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن خود ”ایس او پیز“ کی پابندی کرنا اپنی توہین خیال کرتے ہیں۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ماسک نہ پہننے یعنی ایس او پیز کی دھجیاں اُڑانے والے افراد کو گرفتار کرنے والے اکثر پولیس اہلکار خود بھی بغیر ماسک کے ہی ہوتے ہیں۔

کورونا وائرس کے بلائے جاں وبائی مرض کی تیسری جاری لہر کے حوالے سے تشویشناک ترین انکشاف یہ سامنے آیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں گزشتہ 3 ماہ کے دوران کووڈ 19 کے نئے وائرس سے نوعمر اور نابالغوں یعنی 18 سال سے کم عمر بچوں کے 19 ہزار 367 ٹیسٹ مثبت آچکے ہیں۔حالانکہ زیادہ تر بچوں میں ہلکی علامات جبکہ بعض میں کوئی علامت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود یہ صورت حال اس لیئے تشویش کا باعث ہے کہ کووڈ19 بیماری کی پہلی اور دوسری لہر میں کورونا وائرس سے بچوں کے متاثر ہونے کے ضمن میں اعدادوشمار ایسے پریشان کن اور خطرناک نہ تھے۔مگر یہاں بھی ہماری انتظامی قابلیت کی دو رُخی ملاحظہ ہو کہ جب کورونا کی پہلی، دوسری لہر کے دوران بجے کووڈ 19 کے مرض کا شکار ہونے سے محفوظ و مامون تھے،تب تو ہم نے ملک بھر خاص طور پر سندھ میں تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل کردی تھیں۔ لیکن اَب جب کے کورونا وائرس کی تیسری لہر سے بچے زیادہ متاثر ہورہے ہیں تو سندھ حکومت کے اربابِ اختیار،وفاق کی جانب سے تعلیمی اداروں کی بندش کا اُصولی فیصلہ ہونے کے بعد بھی تعلیمی ادارے کھلے رکھنے پر بضد ہیں۔

دوسری جانب ملک میں کورنا ویکسی نیشن سے متعلق صورت حال کو بھی تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی) کے مطابق ملک میں 9 لاکھ 36 ہزار 383 افراد کو کورونا ویکسین لگائی جاچکی ہے۔جس میں سے صرف گزشتہ ہفتے میں 2 لاکھ 65 ہزار831 افراد کو ویکسین لگائی گئی ہے۔ویکسی نیشن لگانے کے عالمی معیار کے مطابق پاکستان میں ویکسین لگانے کی رفتار انتہائی سست ہے۔گزشتہ دنوں وزیر اعظم کے معاون خصوصی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا تھا کہ”کورونا کی چینی ویکسین سائینوفارم کی مزید 5 لاکھ خوراکیں پاکستان پہنچ گئی ہیں جبکہ مزید 5 لاکھ خوراکیں آج پہنچیں گی اورہم جلد ازجلد ویکسی نیشن کے مرحلے کو تیز کر رہے ہیں اور اسے ایسے مرحلے تک لے کر جانا چاہتے ہیں جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو ویکسین لگ چکی ہو تاکہ بیماری کے پھیلاؤمیں نمایاں رکاوٹ پیدا کی جاسکے“۔ مگر بیان سے ہٹ کر عملی طور پر ابھی تک ایسے شواہد دکھائی نہیں دیئے کہ ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ افراد کو تیز رفتاری کے ساتھ ویکسی نیشن کے لیئے حکومتی سطح پر خاطر خواہ اقدامات اُٹھائے گئے ہوں۔

بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی اتحاد کی جانب سے بھی ابھی تک ویکسین نہیں مل سکی، جس پر وفاقی حکومت نے صوبوں کو ویکسین کی خریداری کا مشورہ دیا ہے۔لیکن مصیبت یہ ہے کہ صوبوں کو ویکسین خرید کر منگوانے میں بھی کم ازکم دو ماہ کا عرصہ تو لگے گا ہی۔ مذکورہ بالا تمام حقائق اس امر کے متقاضی ہیں کہ کورونا کے سد باب کے لیے ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی میں کوئی تساہل نہ برتا جائے، لاک ڈاون ضروری ہو تو گریز نہ کیا جائے،بچوں کے بچاؤ پر خصوصی توجہ دی جائے اور تعلیمی اداروں کی بندش میں غیر ضروری انتظامی تساہل اور لیت و لعل سے کا م نہ لیا جائے۔کہیں ایسا نہ ہوکا حفاظتی اقدامات اُٹھانے میں اربابِ اختیار اس قدر تاخیر کردیں کے اُن کے فوائد ہی ختم ہوکر رہ جائیں۔اس لیئے ہماری گزارش ہے کہ حکومت اپنا رسوخ اور وسائل استعمال کرتے ہوئے سب سے پہلے عوام کیلئے ویکسین کی جلد فراہمی یقینی بنائے اوراگر یہ ممکن نہیں ہوسکتاتو پھر اسمارٹ لاک ڈاؤن کے لیئے مؤثر اور دیرپا حکمت عملی جلد ازجلد ترتیب دی جائے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 08 اپریل 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں