Colonel-Sohail-Abid-shaeed

نورانی نور ہے

نورانی نور ہے،ہر بلا دور ہے۔
جیسے ہی کرنل سہیل نے سرِ راہ بیٹھے فقیر کے کاسہ گدائی میں خیرات کی رقم ڈالی فقیر نے با آوازِ بلند صدالگائی۔
کرنل سہیل کو فقیرکے یہ دعائیہ کلمات سن کر کیسا لگا نہیں بتاسکتا،لیکن بہرحال مجھے اچھا نہیں لگا۔یہ میرے گھر سے میری یونٹ کے درمیان ایک شاہراہِ عام ہے اور میں روز اسی رستے گزرتا ہوں ہمیشہ یہ فقیر اسی رستہ پر بیٹھا ہوتا ہے۔ میرا روز کا معمول ہے کہ میں لازمی اس فقیر کے کاسہ گدائی میں حسبِ توفیق خیرات ضرور ڈالتا ہوں لیکن اس نے آج تک کبھی میرے لیئے تو یہ صدا نہیں لگائی کہ ”نورانی نور ہے،ہر بلا دورہے“۔میں ابھی ان خیالوں میں ہی گم تھا کہ اچانک میرے کانوں سے کرنل سہیل کی آواز ٹکرائی ”کہاں غائب ہو،کہیں عجلت میں گھر پر کوئی شئے تو نہیں بھول آئے“۔
”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں لیکن سہیل! ایک بات تو مجھے بتاؤ ہر کوئی تمہارے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کرتا ہے۔اب اس فقیر کو ہی دیکھ لو،روز میں اسے خیرات دیتا ہوں لیکن مجھے تو کبھی اُس نے ایسے دعائیہ الفاظ میں دُعا نہیں دی جیسی آج تمہیں دی ہے“۔میں نے کہا۔
”حیرت کی بات ہے،ان الفاظ میں ایسا کیا ہے جو تم نے اتنا برا سا منہ بنالیا ہے، جیسے اُس نے مجھے روحانیت کی کوئی اکلیم دے دی ہو۔مجھے تو ان لفظوں میں کوئی ایسی خاص بات نظر نہیں آتی، سوائے ایک دیوانہ کے،نعرہ مستانہ کے“۔کرنل سہیل نے حیرانگی سے کہا۔
”ہوسکتا ہے تمہیں نہ معلوم ہو لیکن ان لفظوں میں ضرورایک خاص بات ہے،ویسے تو عوام الناس میں یہ ہی مشہور ہے کہ بلوچستان کے ضلع خضدا میں دشوار گزار پہاڑ ی راستوں میں گھری ایک جگہ ہے جہاں ایک صوفی بزرگ شاہ نورانی ؒ کا مزار ہے۔لوگ جب وہاں پر جاتے ہیں تو دورانِ سفر یہ صدا اکثر بلند کرتے ہیں کہ ”نورانی نور ہے،ہر بلا دور ہے“۔ لیکن میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ اگر شاہ نورانی ؒ کا کوئی فقیر کسی شخص کو یہ صدا دُعا میں دے دے تو پھر سمجھ لو کہ اُسے دنیا میں خیر و شر کی جنگ کے لیئے چن لیا گیا ہے اور پھر وہ انتہائی اہم ہوجاتاہے“۔ میں نے کرنل سہیل کو وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا۔

”اچھا اگر تمہاری اس عجیب و غریب روایت کو درست بھی مان لیا جائے تو پھر بھی اس فقیر کی طرف سے مجھے دیکھ کر صرف صدا لگانے سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اُس نے اپنا نعرہ مستانہ مجھے دُعا میں دے دیا ہے۔بھئی اُس نے اب بھی صرف ایک صدا ہی لگائی ہے۔اس لیئے بہتر یہ ہی ہے کہ تم رائی کا پہاڑ نہ بناؤ، لیکن تمہاری ایک بات سے مجھے اس حد تک ضرور اتفاق ہے کہ شاہ نورانی ؒ نے صرف مجھے ہی نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے ہر سپاہی کو شر کے خلاف ہونے والی فیصلہ کُن جنگ کے لیئے واقعی ئ چُن لیاہے، کیونکہ خود مجھے بھی کئی روز سے ایسے خیالات آرہے ہیں کہ جیسے میں شر انگیز قوتوں کے خلاف کسی فیصلہ کُن معرکہ میں برسرِ پیکار ہونے والا ہوں،ان ہی جذبات سے مغلوب ہوکر رات کو میں نے ایک نظم بھی لکھی ہے“۔

”بہت خوب بھئی!، وہ نظم کیا ہے ذرا ہمیں بھی سناؤ“۔ میں نے اصرار کیا تو کرنل سہیل عابد یوں گویا ہوئے،
میری وفا کا تقاضہ کے جان نثار کروں
اے وطن تیری مٹی سے ایسا پیار کروں
میرے لہو سے جو تیری بہار باقی ہو
میرا نصیب کے میں ایسا بار بار کروں
خون دل سے جو چمن کو بہار سونپ گیا
اے کاش ان میں خود کو شمار کروں
مری دعا ہے سہیل میں بھی شہید کہلاوں
میں کوئی کام کبھی ایسا یادگار کروں
”یار تم نے تو کمال کردیا،مجھے نہیں معلوم تھا کہ تمہارے اندر اتنا اچھا شاعر چھپا ہوا ہے“۔ میں نظم سننے کے بعد داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ اپنی نظم کی مجھ سے تعریف سننے کے بعد کرنل سہیل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ”دیکھو بھئی! نہ تو میں شاعر ہوں اور نہ ہی شاعر بننا چاہتا ہوں،میں ایک پاکستانی فوجی ہوں اورپاکستانی سپاہی کی طرح پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ہی اس جہانِ فانی سے روانہ ہونا چاہتا ہوں۔ شہادت کی آرزو مجھے پچپن سے ہے،اسی لیئے میں پاک فوج میں بھرتی ہوا،مگر چند دنوں سے میرے اندر شہادت پانے کی خواہش شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے،ایسا کیوں ہورہا ہے میں کچھ نہیں جانتا“۔اس سے پہلے کہ میں کرنل سہیل کو جواباًکچھ عرض کرتا میری یونٹ آگئی اور وہ مجھے الوداع کہہ کر اپنی یونٹ کی جانب روانہ ہوگیا۔



میں بھی اپنی یونٹ آکر اپنی روزمرہ دفتری ذمہ داریوں میں مصروف ہو گیا اور کیسے پورا دن گزر گیا مجھے خبر ہی نہ ہوسکی، رات کے کسی پہر اچانک مجھے خبر ملی کہ کرنل سہیل عابد نے ایک انٹلیجنس آپریشن میں دہشت گردوں کے سرغنہ سمیت کئی دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے کے بعد خود بھی جامِ شہادت نوش کرلیا ہے۔یہ خبر سُن کر میں خدا کا شکر ادا کیئے بغیر نہ رہ سکاکہ جس نے کرنل سہیل کی شہادت کی عظیم خواہش کو اپنی بارگاہ میں اِذنِ باریابی بخشا، بلاشبہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں میں یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی کیونکہ اس آپریشن میں کرنل سہیل اور ان کی ٹیم نے جس دہشت گرد کو ہلاک کیا ہے وہ دہشت گردی کا سرغنہ تھا۔یہ وہ گروہ تھا جووطنِ عزیز میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت ہزاروں افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا تھااور اس کی کارروائیاں روز بہ روز شدت اختیار کرتی جارہی تھیں،اب تک یہ دہشت کرد گروہ دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں میں 100سے زائد معصوموں کی جان لے چکا تھا۔
لیکن کرنل سہیل عابد نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک شاندرا آپریشن میں دہشت گردوں کے سر براہ کو اس کے ساتھیوں سمیت جہنم واصل کر کے اپنا فرض ادا کر دیا تھا۔

آج جبکہ شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے علاقے خڑ قمر میں بارودی سرنگ کا دھماکا، میں لیفٹیننٹ کرنل رشید کریم، میجر معیز، کیپٹن عارف اللہ اور لانس حوالدار ظہیر دفاع وطن میں شہید ہوجانے کی خبریں میڈیا پر چل رہی ہیں اور اِن کی شہادت پرپورے ملک میں ہر طرف سے لوگ دہشت گردی کی مذمت کررہے ہیں۔میں یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اور سنتے ہوئے چپ چاپ سوچ رہا ہوں کہ کیا صرف لفظ”مذمت“ کے بے دریغ استعمال سے دہشت گردی کی یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے؟ میرے پاس اس کا ایک ہی جواب ہے کہ کسی صورت بھی نہیں کیونکہ میرے نزدیک یہ جنگ اب ہمیں صرف کرنل سہیل عابد، لیفٹیننٹ کرنل رشید کریم، میجر معیز، کیپٹن عارف اللہ اور لانس حوالدار ظہیر جیسے جذبہ شہادت رکھنے والے نڈرسپاہی ہی جیت کر دے سکتے ہیں جیسے آج سے سینکڑوں سال پہلے بلوچستان کے ایک علاقے میں جسے ’’گوکل“نامی دیو نے اپنا مسکن بنا رکھا تھا اور وہاں رہنے والے لوگوں کی زندگی اپنے ظلم سے اجیرن کردی تھی کہ پھر اچانک وہاں خدا کے برگزیدہ بندے شاہ نورانی ؒکی آمد ہوئی اور انہوں نے اُس بستی کے مکینوں کو ”گوکل دیو“ کے ظلم سے نجات دلانے کے لیئے ”گوکل دیو“ سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا،یوں شاہ نورانی ؒ اور ”گوکل دیو“ کے درمیان ایک انتہائی خطرناک جنگ کا آغاز ہوا اور با لآخر شاہ نورانی ؒ نے ”گوکل دیو“ کو شکستِ فاش دے کر مظلوم لوگوں کی دلجوئی کی۔یہ تاریخی روایت کتنی ہی ضعیف یا ”سینہ گزٹ“ سہی لیکن مجھے یقین ہے کہ شاہ نورانی ؒ کی سرزمین ِ پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے ہر پاک فوج کے سپاہی پر شاہ نورانی ؒکا خاص دستِ کرم سایہ فگن ہوگیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب امن دشمن ”گوکل دیو“کو پاک فوج کے جری و بہادر سپاہیوں کے ہاتھوں ضرور شکستِ فاش ملے گی۔اللہ تعالی پاک فوج کے ہر سپاہی کی ہمیشہ حفاظت کرے،اس دعائے مستانہ کے ساتھ کہ”نورانی نور ہے،ہربلا دور ہے“۔

حوالہ: یہ تاثراتی کہانی سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 20 جون 2019 کے شمارہ میں شائع ہوئی۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں