China-World-Super-Power

چین ایک عالمگیرعسکری طاقت

چین نے کبھی یہ دعوی تو نہیں کیا کہ وہ واحد عالمی معاشی طاقت ہے لیکن اِس کے باوجود ساری دنیا چین کو ایک معاشی طاقت کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ حتی کہ سپر پاور امریکہ بھی نہ صرف چین کو ایک معاشی قوت کے طور پر مانتا آیا ہے بلکہ اُس نے چین کی معاشی طاقت سے خوب استفادہ بھی کیا ہے۔ لیکن کیا چین دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت کے ساتھ ساتھ ایک عالمگیر عسکری طاقت بھی ہے؟۔اِس سوال کا جواب بھی جلد یا بدیر بہرحال چین کو دینا ہی ہوگا کیونکہ خود کو عالمگیر عسکری طاقت ثابت کئے بغیر چین کبھی بھی باضابطہ طو ر سپرپاور کے منصبِ جلیلہ پر فائز نہیں ہوسکتا۔ شاید اِس بات کا احساس اَب رفتہ رفتہ چینی قیادت کو بخوبی ہوتا جارہاہے۔ یہ ہی وجہ ہے گزشتہ چند ماہ سے چین اپنے حریف ممالک کے خلاف معاشی میدان کے بجائے عسکری محاذ پر چیلنج بن کر اُبھرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اِس وقت چین کی عسکری طاقت کا سامنا وادی لداخ میں صرف بھارتی افواج کو ہی نہیں کرنا پڑرہا ہے بلکہ سپرپاور امریکہ کو بھی کئی مقامات پر، پراکسی وار کی صورت میں چین سے نبرد آزما ہونا پڑ رہاہے۔بظاہر پرسکون دکھائی دینے والی صورت حال اتنی کشیدہ ہے کہ بین الاقوامی اُمور پر گہری نظر رکھنے والے عسکری ماہرین اور تجزیہ کار چین اور امریکہ کے درمیان باقاعدہ عسکری جنگ یا چھوٹی موٹی جھڑپوں کا اندیشہ بھی ظاہر کررہے ہیں۔ خاص طور پر بحیرہ اوقیانوس، بحیرہ عرب اور آبنائے ہرمز کے اردگرد موجود امریکی بحیری بیڑوں کے بارے میں تواترکے ساتھ کہا جارہاہے وہ مکمل طور پر چینی افواج کے گھیرے میں آچکے ہیں اور چین جب چاہے انہیں شدید ترین نقصانات سے دوچا رکرسکتاہے۔ فی الحال اُمید یہ ہی ظاہر کی جارہی ہے کہ چین عسکری محاذ پر امریکہ کے ساتھ اُلجھنے میں پہل نہیں کرے گا لیکن اگر امریکہ یا اُس کے کسی دفاعی اتحادی نے پہل کی غلطی کرتے ہوئے چین کو کسی محاذ پر غصہ دلادیا تو پھر چین اُس کا جواب کیسے دے گا؟۔

اس سوال کا جواب وقت سے پہلے جاننے اور چین اور امریکہ کے درمیان ہونے والی متوقع جنگ کے نتائج،اثرات و عواقب کو سمجھنے کے لیئے دنیا کے بڑے عسکری تھنک ٹینک ”وار گیمنگ“ کررہے ہیں۔ یا در ہے کہ ”وار گیمنگ“ ایک ایسا جدید سائنسی طریقہ کار ہے۔جس میں عسکری ماہرین دو مختلف ممالک کے درمیان کاغذ اور کمپیوٹر پر ایک فرضی جنگ چھیڑ دیتے ہیں اور پھر دونوں حریف ممالک کے دستیاب عسکری وسائل و اہداف کو خیالی طور پر ایک دوسرے کے خلاف استعمال میں لاتے ہیں اور اختتام پر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اِس فرضی جنگ میں کون سا ملک فاتح ٹہرا اور کون سا ملک مفتوح ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اَب تک گزشتہ دو سے تین برسوں میں مختلف تھنک ٹینک کی جانب چین اور امریکہ کے درمیان کم ازکم پانچ بار ”وار گیمنگ“ کی جاچکی ہیں اور ہر ”وار گیمنگ“میں چین فاتح ٹہرا ہے۔ ”وار گیمنگ“ کے بعد ظاہر ہونے والے اعداد وشمار اور حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ بلاشبہ دنیا کا سب سے بڑا عسکری بجٹ خرچ کرنے والے ملک ہے لیکن یہ پہلو بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتاکہ دنیا میں چین دفاع پر خرچ کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور چین تیزی سے اپنی فوج’’پیپلز لبریشن آرمی“ کو جدید سے جدید تر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ چین امریکہ کی دفاعی طاقت کے لیے ایک ایسا چیلنج بن چکا ہے جس کا جواب فی الحال امریکہ کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔



گزشتہ دو دہائیوں میں چینی افوج نے ویسے تو ہر شعبہ میں ہی بے مثال ترقی کی ہے لیکن چین نے سب سے زیادہ ترقی فضائیہ اور بری افواج میں کی ہے۔ ان دونوں شعبوں میں چین نے تکنیکی صلاحیت اتنی زیادہ بڑھا لی ہے کہ اب وہ امریکا سے بھی کہیں آگے نکل چکا ہے۔حالانکہ اِس دعوی کے حق میں کسی کے پاس بھی کوئی دستاویزی ثبوت تو موجود نہیں ہے۔مگر اس کے باوجود عسکری ماہرین بضد ہیں کہ چینی افواج جتنی طاقت ور کاغذ پر دکھائی دیتی ہے۔حقیقت میں وہ اُس سے کہیں زیادہ عسکری قوت اور وسائل کے حامل ہے۔ کیونکہ چین کئی برسوں سے عسکری میدان کیا کچھ کرتا آرہاہے،اُس کے بارے میں دنیا مکمل طور پر لاعلم ہے اور جو تھوڑا بہت دنیا اِس متعلق جانتی ہے، وہ معلومات بھی امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی نیندیں اُڑانے کے لیئے کافی سے زیادہ ہے۔مثال کے طور پر چین جے ٹوئٹی خفیہ جنگی طیاروں پر مبنی ایک یونٹ بنانے کی تیاری کر رہا ہے جس کے بعد وہ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی میں امریکا کی اجارہ داری کو چیلنج کر سکے گا۔ اس کے علاوہ فضا میں ہی اپنے ہدف کونشانہ بنانے والے پی ایل 15 میزائل، 055 کروزو اور جدید ریڈاروں کے باعث چین کی کوشش ہے کہ امریکا یا اس کے اتحادی چینی سرحدوں یا ساحل کے قریب نہ آسکیں۔

اس کے علاوہ چین نے اپنے قومی سلامتی کے مفادات کو دنیا بھر میں فروغ دینے کے لیے عسکری ٹیکنالوجی میں مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفشل انٹیلجنس (اے آئی) کو بھی انتہائی خوبی کے ساتھ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔چین کے تیار کردہ مصنوعی ذہانت سے لیس ہتھیار نہ صرف مستقبل میں ہونے والی جنگوں کو دور بیٹھے کنٹرول کر سکیں گے بلکہ اُن ہتھیاروں کی مدد سے میدان جنگ میں لڑائی کی جزیات پر بھی بہتر عبور حاصل کیا جا سکے گا اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے چینی افواج میدان جنگ کی منصوبہ بندی کو ایک بندکمرے میں موجود کسی چھوٹے سے لیپ ٹاپ پر کرنے پر قادر ہو جائے گی۔چین مصنوعی ذہانت کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو کس قدر اہم سمجھتا ہے اس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ 2018 کے اعداد وشمار کے مطابق چینی کمپنیاں دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سب سے زیادہ جملہ حقوق حاصل کرنے میں کامیاب رہیں اور وہ کمپنیاں ’’بیڈو“ اور’’ٹین سینٹ“ تھیں۔نیز مارچ 2019 میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں تحقیق کے لیے مختلف تعلیمی اداروں نے جو جملہ حقوق حاصل کیے ان میں بھی چین نے امریکہ کو مات دے دی تھی۔

چین مصنوعی ذہانت سب سے زیادہ ڈرون ٹیکنالوجی کے شعبہ میں استعمال کررہاہے اور چین نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے پائلٹ کے بغیر چلنے والی ہوائی گاڑیوں (یو اے وی) میں یہ صلاحیت پیدا کردی ہے کہ وہ میدان جنگ میں خود بخود اپنے ہدف کا انتخاب کریں اور اسے نشانہ بنائیں۔ مصنوعی ذہانت سے لیس (اے آئی پاورڈ) ڈرونز بنانے میں جو دو چینی کمپنیاں سب سے آگے ہیں وہ زیاں یو اے وی اور چِنگڈو ایئرکرافٹ انڈسٹری ہیں۔ جنگی طیارے بنانے والی چِنگڈو ایئرکرافٹ انڈسٹری وہی ہے جو جے۔10، جے۔11، جے ایف۔17 اور جے۔20 جنگی طیارے بناتی ہے۔یان یو اے وی نے ایک ڈرون بلوفِش اے 2 کے نام سے بنایا ہے۔ یہ ڈرون خود بخود پیچیدہ جنگی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکتا ہے جن میں اپنے ہدف کو تلاش کرنا، دشمن کی حرکات پر نظر رکھنا اور منتخب ہدف کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ انسانوں کے بغیر چلنے والے اس قسم کے عسکری ہتھیار چین کی اُن صلاحتیوں میں اضافہ کریں گے جن کا مقصد ایسا جدید نظام بنانا ہے جو دشمن کی چینی علاقے تک رسائی کو روکنے میں مدد فراہم کرسکے۔فوجی اصطلاح میں اس قسم کے نظاموں کو رسائی روکنے والے (اینٹی ایکسس) یا دشمن کو اپنے علاقے سے دور رکھنے (اینٹی ایریا ڈینائل) کی صلاحیت کہا جاتا ہے۔اور چینی کمپنی ایہانگ نے 184 اے اے وی نامی ایک گاڑی نما ڈرون بنا لیا ہے جو ایک سمت میں سیدھا پانچ سو میٹر تک بغیر انسانی مدد کے اڑ سکتا ہے اور اس پر مسافر بھی سوار ہو سکتے ہیں اور سامان بھی چڑھایا جا سکتا ہے۔یعنی اسے ”ڈرون بکتر بند گاڑی“ کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 2018 میں چین نے یو اے وی کے شعبے کے لیے ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر مختص کیے تھے لیکن 2019 میں یہ رقم بڑھا کر دو اعشاریہ چار ارب ڈالر کر دی گئی ہے۔ اگر ان اعداد و شمار کی بنیاد پر چین کی آئندہ سرمایہ کاری کا اندازہ لگایا جائے تو 2025 میں چین یو اے وی کے شعبے میں ترقی کے لیے دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر خرچ کر رہا ہوگا۔ڈرونز کی طرح چین چہرے شناخت کر کے نگرانی کرنے والی ٹیکنالوجی کی فروخت میں بھی دنیا میں سب سے آگے جا چکا ہے اور کہا جاتا ہے کہ چین کی منسٹری آف پبلک سکیورٹی یا وزارت عوامی تحفظ چہروں سے لوگوں کی شناخت کے لیے ایک بہت بڑا ڈیٹا بیس بھی بنا رہا ہے جس کا بڑا مقصد مستقبل میں اپنے ایک ایک دشمن پر نظر رکھنا ہوگا۔

یاد رہے کہ چین نے بحری قوت کو بڑھانے پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ اس وقت چینی بحریہ کے پاس ایک طیارہ بردار جہاز ہے۔ جبکہ ایک اور جہاز بہت جلد چینی بحریہ کا حصہ بنادیا جائے گا اور 2030ء تک مزید چار طیارہ بردار جہاز چینی بحریہ کا حصہ ہوں گے۔ قوت کے اعتبار سے اس وقت چینی بحریہ امریکا کے بعد سب سے بڑی بحری قوت ہے۔ چین کے پاس میزائل بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ ان میں ڈی ایف 14 قسم کے میزائل بھی شامل ہیں، جن کی رسائی 7500 کلو میٹر تک ہے اور بعض ذرائع کہتے ہیں کہ چین ان میزائل کے ذریعے امریکا میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔یعنی چین انتہائی سنجیدگی کے ساتھ چینی افواج کو 2050تک دنیا کی سب سے بڑی اور طاقت ور فوج بنانے کی تیاری کررہا ہے۔ چین اِس وقت بھارت کو وادی لداخ میں بری طرح سے اُلجھا چکاہے اور اَب وہ وہاں سے ایسی جیت حاصل کیئے بنا نہیں پلٹے گا،جسے دنیا ایک بڑی فتح کے طور پر تسلیم نہ کرلے۔علاوہ ازین چین،تائیوان سے بھی بھرپور جنگ کی تیاری کرچکا ہے۔دوسری جانب بحیرہ مشرقی و جنوبی میں چین کی بحری افواج اپنے حریفوں کے خلاف بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔صرف یہ یہی نہیں دوبارہ سے بذورِ طاقت حاصل کیے جانے والے چند جزائر پر بھی چین نے فوجی اڈے قائم کرلیئے ہیں۔ ان عسکری اڈوں کے ذریعے وہ پورے خطے پر نظر رکھنے کے قابل ہوگیا ہے۔ اور کسی بھی صورتِ حال میں چینی فوج فوری ریسپانس کی پوزیشن میں بھی آچکی ہے۔

اس کے علاوہ افریقی ملک جبوتی کے بعد چین اب پاکستانی شہر گوادر میں پاکستان کے اشتراک کے ساتھ بحری اڈا بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ چین ان دونوں اڈوں کو بحرہند میں امن مشن یا امدادی کارروائیوں کے حوالے سے اپنی لاجسٹک پوسٹ شمار کرتا ہے۔ چین اورپاکستان نے ہزاروں فوجیوں کو اقوام متحدہ کے امن مشن میں بھی تعینات کر رکھا ہے اور صومالیہ کے پانیوں میں قزاقوں کے خلاف کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ یعنی اس بار چینی قیادت عسکری محاذ پر کوئی بڑی غلطی کرنے یا کسر چھوڑنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی اور چین صدر شی جنگ پنگ کی قیادت میں ایک عالمگیر عسکری طاقت بننے میں ماضی سے کہیں زیادہ پرعزم دکھائی دے رہا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ چین امریکہ ااور اس کے اتحادیوں کے خلاف اپنی بھرپور عسکری طاقت کو بروئے کار لانے کی تمام تر تیاری مکمل کرچکا ہے۔بس! دیر ہے طبلِ جنگ بجنے کی۔

حوالہ : یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 16 جولائی 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں