China-Start-Digital-War

ڈیجیٹل اسٹرائیک اور چین کا جواب

معروف چینی کہاوت ہے کہ ”کاغذ سے آگ کو نہیں ڈھانپا جاسکتا“۔لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی چونکہ آج کل چین کے خلاف سخت طیش میں ہیں۔ لہذا وہ وادی لداخ میں چین کے جانب سے لگائی جانے والی ”عسکری آگ“کو”بھارتی کاغذ“سے ڈھانپنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں اور پاکستان میں ”سرجیکل سڑائیک“ کے یکے بعد دیگرے فلاپ ہونے والے ڈرامے کے بعد انہوں نے اَب چین پر ”ڈیجیٹل اسٹرائیک“ کرتے ہوئے فوری طورپر بھارت بھر میں 59 چینی ایپس پر مکمل پابندی عائد کردی ہے، جس میں مقبول عام ایپ ٹک ٹاک بھی شامل ہے۔ویسے تو وادی گلوان میں چینی افواج کے ہاتھوں 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کابدلہ اِس سے بہتر کسی محدود سی ”عسکری کارروائی“سے بھی لیا جاسکتاتھا لیکن چونکہ اِس کے لیئے بھارتی فوج میں عزم، بہادری اور ہمت کا ہونا اشد ضروری تھا، پس! نریندر مودی اور امیت شاہ نے کئی اعلیٰ سطحی خفیہ عسکری اجلاسوں میں طے پائے جانے والے فیصلوں کی روشنی میں چینی افواج کی لداخ میں چرھائی کے دو ماہ بعد چینی ایپس پر پابندی کی”جارحانہ حکمت عملی“اختیار کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بھارت کے دفاع میں اور چین کے خلاف بھارتی حکومت کی جانب سے ہونے والی اتنی بڑی ”ڈیجیٹل اسٹرائیک“سے بھی بھارتی عوام مطمئن نظر نہیں آ رہے اور نریندر مودی کی اِس دلیرانہ کاوش کو اُن کی”مہا بزدلی“سے تعبیر کرتے ہوئے پھبتی کس رہے ہیں کہ ”مودی چینی کمپنی پے ٹی ایم کی حفاظت کیوں کر رہے ہیں؟ پے ٹی ایم پر پابندی کیوں نہیں لگارہے؟یہ وہ چینی ایپ ہے جس کے برینڈ لوگو میں مودی کا چہرہ استعمال ہورہا ہے اور اِس کمپنی میں انتالیس اعشاریہ تین فیصد حصص چینیوں کی ملکیت میں ہیں“۔ہمارے خیال میں بھارتی عوام کا نریندر مودی کی36 انچ کی چھاتی پر اعتراض کرنا قطعی بلاجواز ہے کیونکہ نریندری مودی نے تو اپنی دانست میں چین پر حملہ آور ہونے کے لیئے ایک ایسا منفرد محاذ منتخب کیا ہے،جس محاذ پر چین کسی صورت میں بھی بھارت کے خلاف جوابی کارروائی نہیں کرسکتا۔آخری اطلاعات آنے تک چینی حکومت کو ابھی تک ایک بھی ایسی بھارتی ایپ، سافٹ وئیر یا ڈیجیٹل چیز نہیں مل سکی ہے جسے چینی عوام استعمال کرتی ہو اور اُس پر پابندی لگا کر چینی حکومت بھی جوابی ”ڈیجیٹل اسٹرائیک“ کرکے بھارت کو دندان شکن جواب دے سکے۔

”ڈیجیٹل اسٹرائیک“کرنے میں ناکامی کے بعد چین نے اپنی ساری توجہ بھارت کے سرحدی علاقوں کی جانب مبذول کرلی ہے اور چینی افواج نے اَب صرف وادی لداخ میں ہی نہیں بلکہ بھارت سے متصل دیگر سرحدی علاقوں میں بھی تیزی سے پیش قدمی کرنا شروع کردی ہے اور جدید ترین اور مہلک عسکری ہتھیار برق رفتاری کے ساتھ سرحدی علاقوں میں پہنچائے جارہے ہیں۔ بین الاقوامی عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ چین کا اصل ہدف لداخ کے علاقے میں قائم ائیر فیلڈ ”دولت بیگ اولڈی“ ہے۔ چین کو لگتا ہے کہ اِس ائیر فیلڈ کو مستقبل میں سی پیک کے خلاف استعمال کیا جاسکتاہے۔لہٰذا چین زیادہ دیر تک یہ ائیر فیلڈ اَب اس علاقہ میں قائم نہیں رہنے دے گا اور وادی لداخ میں چینی افواج جس طرح سے مختلف مقامات پر اپنی عددی تعداد اور عسکری ہتھیار جمع کررہی ہے۔ اُسے دیکھنے کے بعد تو یہ ہی سمجھ آتا ہے کہ چین نے دولت بیگ اولڈی ائیر فیلڈ کو مکمل طور پر گھیر کر اپنے نشانے پر لے لیا ہے۔اِس مرحلہ پر چین کی جانب سے بھارت کو دو ہی آپشن دئیے جانے کا امکان ہے۔پہلا آپشن توبھارت کو یہ دیا جائے گا کہ وہ خود ہی رضاکارانہ پوری وادی لداخ سے دستبردار ہوکر دولت بیگ اولڈی میں قائم اپنی ائیر فیلڈ ختم کردے۔اِس آپشن کو قبول کرنے کی صورت میں نہ صرف بھارت میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ نبھایا جائے گا بلکہ سی پیک سے ملنے والے معاشی ثمرات میں سے کچھ فائدہ بھارتی عوام تک پہنچائے جانے کا انتظام بھی کردیاجائے گا۔ جبکہ اِس آپشن کو بھارت کی جانب سے رد کئے جانے کی صورت میں چین کی جانب سے بھارت کے خلاف محدود یا وسیع پیمانے پر عسکری کارروائی کرنے کا آخری آپشن استعمال کیا جائے گا۔ فی الحال چین کی جانب سے بھارت پر مختلف عسکری و سفارتی ذرائع سے دباؤ ڈال کر یہ ہی بات سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بہتر یہ ہی ہے کہ بھارت ایک سمجھدار بچے کی طرح چین کی طرف سے دیئے جانے والے پہلے آپشن کو قبول کرلے کیونکہ اگر چین نے اپنے دوسرے اور آخری آپشن کا استعمال کیا تو امریکہ سمیت کوئی بھی ملک اُسے بچانے نہیں آسکے گا۔



چین اور بھارت کے مابین کسی بھی متوقع عسکری جھڑپ کی صورت میں امریکہ یا اُس کا اتحادی کوئی بھی ملک بھارت کو بروقت عسکری مدد نہ فراہم کرسکے۔ اِس امر کو یقینی بنانے کے لیئے چین نے بھارت سے ملنے والے صرف زمینی سرحدی علاقے ہی نہیں بلکہ بھارت سے ملنے والی سمندری حدود میں بھی اپنی عسکری تنصیبات بڑے پیمانے پر تعینات کرنا شروع کردی ہیں۔ پیپلزلیبریشن آرمی کی جانب سے زمین کے بعد سمندر میں ہونے والی غیر معمولی عسکری نقل و حرکت بھارت اور اِس کے اتحادیوں کے لیئے ایک کھلا پیغام ہے کہ اِس بار چین خطے میں اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے انڈو پیسیفک ریجن میں چین کے خلاف بھارت کی عسکری امدادی کے لیئے تین بحری بیڑے روانہ کیئے ہیں،جن میں سے ایک بحری بیڑہ کم ازکم 60 جنگی ہوائی جہازوں پر مشتمل ہے۔جس کے جواب میں چین نے بھی بحیر عرب اور بحرہ ہند میں اینٹی شپ بیلسٹک میزائل بردار جدید جنگی طیارے کسی بھی ہنگامی صورت حال کے لیئے الرٹ کردیئے ہیں۔ بین الاقوامی عسکری ماہرین کے مطابق امریکی بحری بیڑے ہاتھی کے صرف دکھانے کے دانت جیسے ہی ہیں،جنہیں سمندر میں اُتارنے کا بنیادی مقصد دنیا کے سامنے فقط امریکی بحری طاقت کا مظاہر کرنا ہے اور امریکہ کبھی بھی اپنے یہ قیمتی بحری بیڑے چینی بحری افواج کے سامنے لانے کی غلطی نہیں کرے گا۔کیونکہ امریکہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ بہرحال چین کی بحری طاقت تین،چار امریکی بحری بیڑے تباہ و برباد کرنے کے لیئے تو کافی سے زیادہ ہے۔اس کے علاوہ جنوبی کوریا میں 40 ہزار سے زائد امریکی افواج پہلے ہی سے چینی افواج کے نشانے پر آئی ہوئی ہیں۔ جس کی بابت چین کی جانب سے امریکہ کو خاموش سفارتی پیغام پہنچا دیا گیا ہے اگر امریکی بحری بیڑوں نے بحرہ اوقیانوس کی سمندری حدود سے بحرہ ہند یا بحرہ عرب میں داخل ہونے کی ہمت کی تو اِس کا جواب جنوبی کوریا میں موجود امریکی تنصیبات پر حملہ کی صورت میں بھی دیا جاسکتاہے۔

چین بھارت کو سرحدی محاذ پر ہی آنکھیں نہیں دکھارہا ہے بلکہ بھارت کے دیگر پڑوسی ممالک کو بھی اُس کے خلاف جارحانہ اقدامات لینے کے لیئے حوصلہ افزائی کر رہاہے۔ یعنی چین نے بھارت کے خلاف نیپال،بنگلہ دیش اور بھوٹان کی مدد سے بھی ایک پراکسی وار چھیڑ رکھی ہے۔ نیپال جسے کبھی بھارت اپنی طفیلی ریاست قرار دیتا تھا،وہ ننھا، منا سے نیپال بھی بھارت کے زیرقبضہ علاقوں کو اپنے نقشہ میں شامل کرنے کا اعلان کرچکا ہے۔نیپال نے بھارتی صوبہ اتراکھنڈ کے تین علاقوں کو اپنے نئے سیاسی نقشے میں شامل کرلیا ہے جبکہ بھارت کا دعوی ہے کہ یہ اس کے علاقے ہیں۔ دوسری جانب بھوٹا ن نے بھی اپنی سرحد سے ملحق بھارت کی شمال مشرق ریاست آسام کے گاؤں میں کسانوں کے لیے شہ رگ کہلائی جانے والی”کالا ندی“کا پانی روک دیا ہے۔بھوٹان کی جانب سے اچانک بھارت کا پانی روک دینے سے ہزاروں بھارتی کسانوں کا ذریعہ معاش شدید خطرے میں پڑ گیا ہے۔واضح رہے کہ بھوٹان کے کالا ندی کو آسام کے سرحدی علاقہ بکسا ضلع کے کسانوں کے لیے شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس ندی سے نکلنے والی نہر سے ضلع کے 26 گاؤں کے کسان اپنی فصلوں کی سینچائی کرتے ہیں۔ 1953 کے ایک معاہدے کے تحت مقامی کسان دھان کی فصلوں کی سینچائی کالا ندی سے آنے والے پانی سے کرتے رہے ہیں۔تقریباً 38 ہزار مربع کلومیٹر پر واقع بھوٹان، مالدیپ کے بعد جنوبی ایشیا کا دوسرا سب سے چھوٹا ملک ہے اور بھارت برسہابرس سے ترقیاتی اُمور، تعلیم، خارجہ پالیسی اور سیکورٹی جیسے معاملات پر بھوٹان کو مالی امداد فراہم کرتا رہاہے۔سیاسی تجزیہ نگار وں کا کہنا ہے کہ چین سے مالی معاونت ملنے کے بعد اَب بھوٹان کو بھی بھارت کی ضرورت نہیں رہی ہے اور بھوٹان نے پانی روکنے کا فیصلہ بھی چین کے ایماپر ہی کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چند روز قبل نیپال نے بھی اپنی سرحد سے ملحق بھارتی صوبہ بہار کے مشرقی چمپارن ضلع میں لال باکیا ندی پر واقع ڈیم کی مرمت کرنے سے بھارت کو روک دیا تھا۔ چونکہ نیپال کی ندیو ں سے آنے والا پانی ہر سال برسات کے دنوں میں جنوبی بہار کے اس علاقے کے لیے بہت بڑی تباہی لے کر آتا ہے اس لیے اس ڈیم کو ہر سال مرمت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس مرتبہ بھی جب بھارتی حکام ڈیم کی مرمت کرنے کے لیے گئے تو نیپالی حکام نے ایسا کرنے سے یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ یہ ڈیم نیپال کے علاقے میں واقع ہے اور ڈیم سے پانچ سو میٹر تک کا علاقہ نیپال کا حصہ ہے۔لطیفہ ملاحظہ ہو کہ پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دینے والے بھارت کی اَب اپنی یہ حالت ہوگئی ہے کہ بھوٹان اور نیپال جیسے ملک بھی بھارت کا پانی روکنے کی صرف دھمکی ہی نہیں دے رہے بلکہ پانی روک بھی چکے ہیں اور36 انچ کی چھاتی رکھنے والا نریندر مودی سوائے مذمتی بیان دینے کے کچھ کر نہیں پارہا۔

زمین، سمندر اور پراکسی وار کے علاوہ ایک اور بھی ایسا محاذ ہے جہاں سے چین بھارت کے خلاف جنگ کی باقاعدہ تیاری کررہاہے اور وہ ہے خلائی محاذ۔یعنی چین دنیا کے سامنے پہلی بار اپنی خلائی ٹیکنالوجی کو باقاعدہ طور پر جنگی مقاصد کے لیئے استعمال کرنے جارہا ہے۔ جس کے لیئے چین نے وادی لداخ میں 5 جی نیٹ ورک ایک جال سا بچھا دیا ہے،جسے فی الحال سمجھنا اور اِس سے بچ پانا کم ازکم اُس بھارتی فوج کے لیئے تو ناممکن ہی ہوگا، جس کے موبائلوں پر 3 جی کے سگنل بھی صحیح طرح سے نہ آتے ہوں۔ ویسے آپس کی بات ہے، ذرائع تویہ بھی بتاتے ہیں کہ وادی لداخ کے علاقے گلوان میں بھارتی افواج کی کثیر پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں میں بھی 5 جی ٹیکنالوجی کا بڑا اہم کردار تھا۔اَب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ چین بھارت کے خلاف ایک جہتی، دو جہتی یا سہہ جہتی جنگ نہیں بلکہ پوری پانچ جہتی یعنی 5 جی وار کرنے کے فراق میں ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 09 جولائی 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں