China in Kashmir

چین اِن کشمیر

دنیائے سیاست میں کسی بھی مقبوضہ جگہ،علاقہ یا خطے سے کسی غاصب کا قبضہ وا گزار کروانے یا کسی آزاد ملک پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے فقط دو ہی طریقے رائج ہیں۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ آپ اپنی بھرپور طاقت سے قابض استعمار پر حملہ آور ہوں اور اُسے مقبوضہ علاقے سے بے دخل کردیں۔یہ طریقہ ترکی،کردوں کے خلاف کامیابی کے ساتھ استعمال کرچکا ہے۔نیز آج کل اسی اُصول کے تحت آذربائیجان اپنے مقبوضہ علاقہ گورنو کارا باخ کی آزادکروانے کے لیئے آرمینیا کے خلاف جنگ میں مصروف عمل ہے۔ یادرہے کہ یہ فارمولا صحیح معنوں صرف اُسی وقت ہی کام کرتا ہے جب قابض قوت آپ سے عسکری طاقت میں کم تر یا پھر برابر ہو۔ لیکن اگرآپ کو اپنے سے زیادہ عسکری طاقت و قوت کے حامل حریف کا سامنا ہو اور آپ کو اُس کے جوابی حملہ میں نقصان ہونے کا بھی اندیشہ لاحق ہوتو پھر دوسرا قدرے محفوظ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ مقبوضہ جگہ حاصل کرنے یا کسی آزاد ملک کے باشندوں سے اُن کی سرزمین چھیننے کے لیئے اپنے کسی ایسے حلیف اور دوست ملک کی ”برادرانہ خدمات“ حاصل کرلی جائیں، جس کی عسکری قوت آپ کے حریف ملک سے کہیں زیادہ ہو۔اس طریق کے تحت امریکہ نے فلسطین سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے یہودیوں کے لیئے اسرائیل جیسے مقبوضہ ملک کا قیام یقینی بنایا تھا۔ شاید مقبوضہ کشمیرکے معاملے پر پاکستان نے بھی مؤخرالذکر طریقہ پر عمل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے، اپنے حلیف اور دوست ملک چین کو مقبوضہ کشمیر کا خطہ بھارت کے استبدادی پنجوں سے آزاد کروانے کا ”برادرانہ ٹاسک“دے دیا ہے۔ اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ ایسا ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ آوازیں بھارتی میڈیا پر سنائی دے رہی ہیں۔ممتاز ترین بھارتی تھنک ٹینک اور اُن کے ساتھ منسلک زیرک تجزیہ کاروں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ چونکہ چین کے نزدیک پاکستان بعینہ وہی حیثیت رکھتا ہے جو امریکہ کی نگاہ میں اسرائیل کی ہے۔لہٰذا چین کی جانب سے بھارت کے سرحدی علاقوں میں ہونے والی تمام تر عسکری ہلچل کا بنیادی مقصد وحید مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے کے علاوہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔

یہ بھی پڑھیئے: کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سنگِ بنیاد

دلچسپ بات یہ ہے کہ اَب یہ بات آہستہ آہستہ مقبوضہ کشمیرکی بھارت نواز کشمیری قیادت کے لبوں پر بھی آنے لگی ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی میڈیا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے مودی سرکار کے 5 اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور بھارتی یونین قرار دینے کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”مجھے اور دیگر کشمیری رہنماؤں کو پابند سلاسل کر کے پوری وادی کشمیر کو بھارتی افواج نے عملاً قید خانے میں تبدیل کردیاہے۔لیکن مجھے قوی اُمید ہے کہ چین نے مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی کو تسلیم نہیں کیا اور اَب چین کی مدد سے نہ صرف آرٹیکل بحال ہوجائے گا بلکہ مودی حکومت کو کشمیر کی تقسیم اور بھارتی یونین علاقے قرار دینے کا اقدام بھی منسوخ کرنا پڑے گا“۔واضح رہے کہ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے چیئرمین فاروق عبداللہ بھارت نواز رہنما سمجھے جاتے ہیں اور 1982 سے 1984 کے دوران، بھارت کی آشیر باد سے وہ مقبوضہ کشمیرکے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ رہے ہیں اور اب بھی فاروق عبداللہ بھارتی لاک سبھا کے رکن ہیں۔ تاہم 5 اگست 2019 کے سیاہ اقدام کے بعد جب مودی حکومت نے فاروق عبداللہ سمیت مقبوضہ کشمیر کی تمام قیادت کو بھی حراست میں لے لیا تھا،تو ان سب کی عقل صحیح معنوں میں ٹھکانے پر آئی۔ اَب انہیں رہ رہ کر دن کے اُجالے میں بھی پاکستان اور چین کی حمایت کے خواب دکھائی دینے لگے ہیں۔ بہر کیف فاروق عبداللہ کے اس بیان پر بھارت کے میڈیا میں کہرام بپا ہوگیا ہے اور بھارتی الیکٹرانک میڈیا میں نشر ہونے والے مختلف تجزیاتی پروگروموں میں کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کیا جارہاہے کہ چین لائن آف ایکچویل پر بھارت کے خلاف جو بھی کچھ کر رہا ہے،وہ پاکستان کے کہنے پر مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے آزاد کروانے کے لیئے کر رہا ہے۔ نیز مقبوضہ کشمیر کی ایک اور بھارت نواز کشمیری رہنما محبوبہ مفتی نے تو حکومتی نظربندی سے رہا ہونے کے فورا! بعد یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ”کشمیر کا معاملہ اَب آرٹیکل 370 کی بحالی سے بھی حل نہیں ہوسکے گا کیونکہ بھارتی قیادت نے ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر جو تکلیف دہ زخم لگائے ہیں،اَب اُن کی رفو گری کے لیئے ہمارے پاس چین اور پاکستان کی جانب مدد کے لیئے دیکھنے کے علاوہ کوئی اور دوسرا راستہ بچا ہی نہیں ہے“۔

حالانکہ ہماری رائے یہ ہے کہ چین کی اولین ترجیح لائن آف ایکچویل کو ختم کرکے تبت کو مکمل طور پر چین کے اندر شامل کرنا ہے لیکن بہرحال چین کی دوسری ترجیح یہ بھی ضرور ہوگی کہ مقبوضہ کشمیر اور اس کے ساتھ ملحق جتنے بھی علاقوں پر بھارت قابض ہے۔اُن کو بھی جلد ازجلد اپنے عسکری کنٹرول میں لے لیا جائے تاکہ اگر مستقبل قریب میں امریکا اپنے اتحادی ممالک بالخصوص بھارت کی مدد سے چین کا گھیراؤ کرنا بھی چاہے تو اُسے کم ازکم اس ایک محاذ پر سخت ترین ناکامی یا شدید ترین عسکری مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔یوں جان لیجئے کہ مقبوضہ کشمیر چین کی وہ پہلی اہم ترین دفاعی لائن ہے جسے چینی قیادت اپنے دیرینہ دوست پاکستان کی مدد سے سب سے پہلے ناقابلِ تسخیر بنانا چاہے گی اور اس کے لیئے از حد ضروری ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انتظامی وعسکری طاقت کو زیادہ سے زیادہ کمزور کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق چین نے مقبوضہ کشمیر میں بیک ڈور چینل سے بھارت نواز کشمیری قیادت سے مستحکم رابطے استوار کرلیئے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی قیادت مودی حکومت کی ذرہ برابر بھی پرواہ کیئے بغیر کھلم کھلا چین کو مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کے لیئے خوش آمدید کہہ رہی ہے۔ دراصل یہ چین کی ایک سفارتی و عسکری حکمت عملی ہے، جس کے اظہار کا بڑا مقصد عالمی طاقتوں کو یہ باور کروانا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی چین اپنا اثرو رسوخ بنا چکا ہے۔ نیزمقبوضہ کشمیر کے تنازعہ میں بھارت اور پاکستان کے ساتھ تیسرے فریق چین کے شامل ہونے کے بعد بین الاقوامی سطح پر بھی مسئلہ کشمیر کی حیثیت تبدیل ہونے کا پیغام بھی دیا جارہاہے۔بلاشبہ بھارت جو مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا تھا،اُس کے لیئے یہ تمام تر صورت حال انتہائی خطرناک اور تشویش کا باعث ہے۔کیونکہ مقبوضہ کشمیر کی آدھی سے زائد کشمیری قیادت تو روز اول سے ہی پاکستان کے ساتھ پیوستہ تھی اور اَب باقی بچی کچھی کشمیر ی قیادت بھی چین کی چھتر چھایہ میں پناہ لے چکی ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر سے بھارت کو ملنے والی سیاسی امداد و تعاون کا ہر چور راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بند ہوگیاہے۔

یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں چین کی موجودگی اور اثرورسوخ سے کشمیر میں چلنے والی آزادی کی تحریک کو بھی نمایاں مدد حاصل ہوگی اور اُمید قائم کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ایک دوماہ میں مقبوضہ کشمیر میں چینی اثرورسوخ کے واضح اثرات دنیا بھر کو بھی محسوس ہونا شروع ہوجائیں گے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس بار مقبوضہ کشمیر میں تعینات سات لاکھ بھارتی افواج کے لیئے سرد ترین موسم قہربن کر ٹوٹے گااور لاکھوں سپاہیوں کے لیئے پوری وادی دہکتی ہوئی دوزخ بنادی جائے گی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس مخدوش صورت حال کا مودی سرکار کوبھی بخوبی ادراک ہے۔ شاید اسی لیئے بھارتی افواج لائن آف ایکچویل پر چینی افواج کے ساتھ بار بار مذاکرات کی نشستیں منعقد کررہی ہے۔کیونکہ بھارت، وادی لداخ اور مقبوضہ کشمیر میں شدید ترین سرد موسم ہوجانے سے پہلے بہر صورت چین کو لائن آف ایکچویل پر ایک طویل المدتی سیز فائر پر آمادہ کرنا چاہتاہے۔ مگر بھارت کے لیئے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ چین کسی بھی صورت،بھارت کی پیش کردہ شرائط پر سیز فائر کرنے پر آمادہ ہونے پر تیار نہیں ہے۔چین اور بھارت کے درمیان حالیہ سرحدی تنازع پر اَب تک ایک درجن سے زائد اعلیٰ سطحی مذاکراتی نشستیں ہوچکی ہیں۔لیکن ذرائع بتاتے ہیں ہر نشست میں چین نے اپنے مطالبات میں کمی کرنے کے بجائے مزید اضافہ ہی کیا ہے۔ یعنی چین مختلف سفارتی حیلوں، بہانوں سے مودی سرکارکو مذاکرات کی میز پر اُلجھاکر رکھنا چاہتا ہے۔ تاآنکہ وہ مناسب وقت اور موسم نزدیک سے نزدیک تر آجائے،جب چین کے لیئے لائن آف ایکچویل پر پیش قدمی کرنا آسان اور چینی افواج کی پیش قدمی کو روک پانابھارتی افواج کے لیئے سخت مشکل یا یوں سمجھ لیئے کہ ناممکن ہوجائے۔

مزید پڑھیں: بھارت کے تابوت میں آخری کیل کشمیر

تازہ ترین اطلاعات کی مطابق چین کے ساتھ لائن آف ایکچویل پر روز بہ روز گھمبیر ہوتی ہوئی صورت حال سے بروقت نمٹنے کے لیئے بھارت نے امریکا سے باضابطہ ”سفارتی و عسکری مدد“ طلب کرلی ہے۔جس کے جواب میں 27 اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور امریکی وزیر دفاع مارک ایسپرنے اپنی بھارت آمد کا عندیہ دے دیا ہے۔ یاد رہے کہ 3 نومبر کو امریکا میں صدارتی انتخابات ہورہے ہیں اور اُسی دوران مائیک پومپیو کے ہمراہ مارک ایسپر کا بھارت کاخصوصی دورہ کرنا انتہائی معنی خیز ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بھارت امریکا سے کیا مانگ رہا ہے؟بلکہ اہم ترین سوال تو یہ ہے کہ مائیک پومپیو اور مارک ایسپر چین کے خلاف امریکا کی جانب سے بھارت کو کتنی سفارتی،سیاسی و عسکری امداد بہم پہنچا سکتے ہیں؟۔شنید یہ ہی ہے کہ اس بار بھی بھارت امریکا کے بچھائے گئے ایک بہت بڑے جال میں پھنسنے جارہا ہے کیونکہ امریکا کو چین کے ساتھ اپنے تجارتی معاملات طے کرنے کے لیئے ہدیہ میں چین کو کچھ تو دینا ہی ہوگا اور اگر مقبوضہ کشمیر اور وادی لداخ کو ہی نئی عالمی طاقت چین کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کر دیا جائے تو یقینا چین بھی ٹوٹتے،بکھرتے امریکا کو اپنے آنے والے عالمگیر دورِ حکمرانی میں باعزت طریقے سے وقت گزارنے کا کم ازکم ایک موقع تو فراہم کرہی سکتاہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 22 اکتوبر 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں