china-and-usa-conflict-after-usa-election

چین کی کلکاریاں اور امریکا کی سسکاریاں

کتنی عجیب بات ہے کہ امریکا اگر چین کو جنگ کے لیئے دس بار للکارتا ہے تو چین صرف ایک بار ہی جواب دیتا ہے اور کبھی کبھار تو امریکی اہلکار چینی حکام کو جنگ کی دھمکیاں دے دے کر اپنا گلا بٹھا لیتے ہیں اور چین جواب میں ایک سفارتی جملہ ارشاد فرمانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔دراصل امریکا چین اور اس کے اتحادیوں کو جنگ کی دھمکیوں سے ہی مرعوب کرنے کی سفارتی تگ و دو میں مصروف ہے۔جبکہ چین انتہائی خاموشی کے ساتھ امریکا کے ساتھ مختلف محاذوں پر باقاعدہ چومکھی لڑائی لڑرہاہے اور جب کسی بھی نازک محاذ پر امریکا کو چین کے ہاتھوں کاری زک پہنچتی ہے تو وہ فوراً چین کے للکارنا شروع کردیتا ہے۔لگتا یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں بھی چین کے ہاتھوں امریکا کو بڑا بھاری نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔جب ہی تو امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے کم ازکم گیارہویں باردنیا کو مخاطب کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ ”جو بائیڈن انتظامیہ کا افغانستان سے فوج نکالنے کا مقصد چین پر اپنے وسائل کو خرچ کرنا ہے، یہ وقت ہے کہ افغانستان کے عوام خود آگے آئیں، دہشت گردی کا خطرہ اب افغانستان کے بجائے دوسری جگہوں پر منتقل ہوگیا ہے۔جبکہ ہماری ایجنڈا فہرست میں اب دیگر بہت سے اہم معاملات میں جن میں چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرورسوخ جلد ازجلد محدود کرنا ہے۔ لہذا اب ہمیں اپنی طاقت اور وسائل کو یہاں خرچ کرنا ہوگا“۔بعض مرتبہ تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کا بنیادی وظیفہ ہی بس اتنا رہ گیا ہے کہ ہر دو، چار دن بعد بیان جاری کردے کہ ”ہمارا اصل ہدف چین ہے“۔

حیران کن بات یہ ہے کہ امریکی وزیرخارجہ کی جانب سے کبھی یہ نہیں بتایا جاتاکہ چین کے خلاف امریکانے ابھی تک کون کون سے ایسے جارحانہ اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے کہ جن سے چین کی عالمگیر ترقی کو روکا جاسکتاہے۔اس سوال کے جواب کی اہمیت اس لیئے بہت زیادہ ہے کہ دنیاکے طول و عرض میں بسنے والے عام لوگوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ چین بڑی تیزی کے ساتھ بطور ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے خود کو منواتا جارہاہے اوراگر بنظرغائر جائزہ لیا جائے تو یہ رائے عامہ کچھ اتنی غلط بھی نہیں ہے۔امریکا کے لیئے لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ یورپی یونین کے اعداد و شمار کی ایجنسی یورو اسٹیٹ کے مطابق چین نے گزشتہ برس یورپی یونین کے ساتھ تجارتی شراکت داری میں امریکا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ چین اور یورپی یونین بلاک کے درمیان درآمدات و برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔یورپی اعداد و شمار کی ایجنسی یورو اسٹیٹ کے مطابق سن 2020 کے دوران چین کی جانب سے یورپی بلاک کے ساتھ امریکا کے مقابلے میں زیادہ تجارت کی گئی۔

یاد رہے کہ چین کو امریکا سے تجارت میں سبقت گزشتہ برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران کورونا وائرس کی وبا سے متاثر ہونے بعد حاصل ہوئی تاہم اسی سال کے آخر میں چینی معیشت سنبھلنے کے باعث ملکی کھپت میں ماضی کے مقابلے میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس سے یورپی مصنوعات کے فروخت میں مدد ملی، خاص طور پر آٹوموبائل اور لگثری مصنوعات کے شعبوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ ادھر یورپ میں طبی سازوسامان اور الیکٹرانکس کی مانگ میں زبردست اضافے کے نتیجے میں چین کو فائدہ حاصل ہوا۔علاوہ ازیں یورپی بلاک اور چین کے مابین طویل مذاکرات کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ یورپی کمپنیوں کو چینی منڈیوں تک بہتر رسائی حاصل ہو سکے۔یورو اسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2020ء کے دوران ای یو کا چین کے ساتھ تجارتی حجم 586 ارب یورو (711 ارب امریکی ڈالر) تک پہنچ گیا جبکہ امریکا کے ساتھ 555 ارب یورو (673 ارب امریکی ڈالر) کی تجارت کی گئی۔اعداد و شمار کی یورپی ایجنسی نے بتایا کہ یورپی یونین کی برآمدات 2.2 فیصد اضافے کے ساتھ 202.5 ارب یورو تک پہنچ گئیں جبکہ اسی دوران چین سے درآمدات 5.6 فیصد اضافے کے ساتھ 383.5 ارب یورو رہی۔

صرف یہ ہی نہیں فضاؤں میں بھی چین گزشتہ برس امریکا پر برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور چین کا گوآنگ ژُو ہوائی اڈہ پہلی بار دنیا کا مصروف ترین ایئر پورٹ بن گیا۔ گزشتہ برس دنیا کے دس مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے سات چینی ایئر پورٹ تھے۔کورونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں ایک طرف سبھی ملکوں میں عام شہریوں کی اکثریت نے اگر صرف مجبوری میں ہی فضائی سفر کرنے کو ترجیح دی تو دوسری طرف مختلف ممالک کی طرف سے اپنے ہاں بین الاقوامی فضائی آمد و رفت کو بھی احتیاطاً یا مجبوراً لیکن بار بار معطل کیا جاتا رہا۔اس کا نتیجہ نا صرف تجارتی فضائی کمپنیوں کو ہونے والے کھربوں یورو کے نقصان کی صورت میں نکلا بلکہ ہوائی اڈوں اور فضائی سفر سے جڑے دیگر شعبوں کی آمدنی بھی بہت کم ہو گئی۔ انہی نتائج میں سے ایک یہ بھی ہے کہ 2019ء تک جو ہوائی اڈے دنیا کے مصروف ترین ایئر پورٹ کہلاتے تھے، وہ 2020ء میں بہت پیچھے رہ گئے اور اس حوالے سے کئی مقابلتاً غیر معروف نام پہلی مرتبہ عالمی معیار بن کر سامنے آئے ہیں۔

دنیا بھر کے ہوائی اڈوں کی تجارتی تنظیم ایئر پورٹس کونسل انٹرنیشنل (اے سی آئی) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس چینی شہر گوآنگ ژُو کا بائی یُن ایئر پورٹ وہاں اترنے یا وہاں سے اپنا سفر شروع کرنے والے مسافروں کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا مصروف ترین ایئر پورٹ میں سر فہرست رہا۔ایئر پورٹس کونسل انٹرنیشنل کی ابتدائی طور پر جاری کردہ ورلڈ ایئر پورٹ ٹریفک رینکنگ کے مطابق 2020ء میں دنیا کے دس مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے سات صرف ایک ملک چین کے ہوائی اڈے تھے۔ 2019ء تک امریکی شہر اٹلانٹا کا دنیا کا مصروف ترین ہوائی اڈہ رہنے والا ہارٹس فیلڈ جیکسن ایئر پورٹ گزشتہ برس دوسرے نمبر پر رہا اور اسے استعمال کرنے والے مسافروں کی تعداد 61 فیصد کی کمی کے ساتھ 42.9 ملین رہی۔اٹلانٹا ایئر پورٹ کے لیے گزشتہ بیس سال سے بھی زائد عرصے میں یہ پہلا موقع تھا کہ یہ امریکی ہوائی اڈہ دنیا کا مصروف ترین ایئر پورٹ ہونے کے اپنے اعزاز سے محروم ہو گیا۔2020ء میں کورونا وائرس کی وبا نے برس ہا برس تک انتہائی مصروف رہنے والے دنیا کے کئی ایسے ہوائی اڈوں کی حیثیت ہی بدل دی، جو پہلے ورلڈ ٹاپ ٹین میں شمار ہوتے تھے لیکن گزشتہ برس کی رینکنگ میں ان کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔

اس کا ایک ثبوت یہ کہ گزشتہ برس دنیا کے دس مصروف ترین ہوائی اڈوں میں کوئی ایک بھی یورپی ایئر پورٹ شامل نہیں تھا۔ لندن کا ہیتھرو ایئر پورٹ اور پیرس کا چارلس ڈیگال ہوائی اڈہ، جو 2019ء کی ورلڈ رینکنگ میں ٹاپ ٹین میں شامل تھے، اس مرتبہ اس فہرست میں شامل ہی نا ہو سکے۔اسی طرح دبئی کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ اور جاپان کا ٹوکیو انٹرنیشنل ایئر پورٹ بھی 2020ء کی ٹاپ ٹین فہرست سے خارج ہو گئے۔ اس کے برعکس چین میں ہونگ چیاؤ کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ، جو پچھلے سال دنیا کا نوواں مصروف ترین ایئر پورٹ رہا، اس سے ایک سال پہلے 46 ویں نمبر پر تھا۔یہ بات امریکا سمیت، مغربی دنیا کے کئی ماہرین کے لیے بظاہر ناقابل یقین ہو گی کہ پچھلے برس دنیا کے دس مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے سات چین کے مختلف بڑے شہروں کے ہوائی اڈے تھے اور باقی تین امریکا کے چند مشہور ایئر پورٹ رہے ہیں۔ورلڈ ٹاپ ٹین میں شامل تین امریکی ہوائی اڈوں میں سے اٹلانٹا دوسرے نمبر پر، ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس کا فورٹ ورتھ ایئر پورٹ چوتھے نمبر پر اور ڈینور کا ہوائی اڈہ ساتویں نمبر پر رہے۔ان تین کے علاوہ پہلے، تیسرے، پانچویں، چھٹے، آٹھویں، نوویں اور دسویں نمبر پر رہنے والے تمام ساتوں ہوائی اڈے چینی تھے۔

درج بالا تازہ ترین حقائق سے منکشف ہوتاہے کہ جب دنیا کورونا وائرس کی پہلی، دوسری اور تیسری لہر کے سامنے بے چارگی کی تصویر بنی ہوئی ہے عین اُس دوران چینی معیشت اور سیاست بلندیوں کی جانب محو سفر ہے۔جبکہ چین کے جتنے حریف ہیں، وہ کورونا وائرس کے کاری وار سہہ رہے ہیں۔خاص طور پر چین کے خلاف بننے والے دفاعی اتحاد کواڈ میں شامل تمام ممالک جیسے بھارت،برطانیہ،جاپان اور آسٹریلیا وغیرہ میں کورونا وائرس نے جس قسم کی تباہی مچائی ہوئی ہے اگر اُن سے یہ ممالک بچ بھی جاتے ہیں تو ان کی معیشت کو بحال ہونے کے لیئے ایک طویل مدت درکار ہوگی۔جبکہ دوسری جانب خود امریکا کی اپنی حالت بھی خاصی نازک ہے۔ گزشتہ دنوں عراق کے دارالحکومت میں امریکی فوجیوں کے زیر استعمال ایئر بیس پر نامعلوم مقام سے 5 راکٹ داغے گئے جس کے نتیجے میں 5 افراد زخمی ہوگئے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق عراق کے دارالحکومت بغداد میں البلد ایئربیس میں فوجیوں کے رہائشی علاقے میں 2 راکٹس اور 3 راکٹس امریکی کمپنی کی کینٹن پر گرے۔ راکٹس سے فضائی اڈے کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور 5 افراد زخمی ہوگئے۔زخمی ہونے والے افراد میں دو غیر ملکی کنٹریکٹرز اور 3 عراقی فوج کے اہلکار شامل ہیں۔

تاحال کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ زخمیوں میں سے دو کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔ اس فضائی اڈے پر فروری میں بھی حملے کیئے گئے تھے۔امریکی فضائیہ کے کمانڈر نے بھی راکٹ حملے کی تصدیق کی ہے تاہم زخمی ہونے والے اہلکاروں کے نام ظاہر نہیں کیئے گئے ہیں۔ صدر جوبائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک امریکی فضائی اڈے پر 20 سے زائد راکٹس داغے جاچکے ہیں۔واضح رہے کہ امریکی حکام ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کرسکے کہ اُن کی دفاعی تنصیبات پر با ر بار یہ حملے کیئے کس کی جانب سے جارہے ہیں؟۔ یہاں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جب ایک جانب امریکا عراق اور افغانستان میں مہلک حملوں کی زد پر ہے اور دوسری جانب اُس کے اتحادی کورونا وائرس کے جان لیوا پنچوں میں سسک رہے ہیں۔کیاایسے حالات میں امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے لیئے صرف زبانی و کلامی بیانات سے چین کی تیز رفتار ترقی کو روک پانا ممکن ہوسکے گا؟۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 26 اپریل 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں