Black-Magic-Every-Where-in-Pakistan

لگتا ہے کہ کسی نے جادو کروا دیا ہے

حالیہ سینیٹ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اُس لمحے اپنی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا دھچکا لگا۔جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی،غیر متوقع طور پر حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو پانچ ووٹوں سے شکست دیکر کامیاب ہوگئے۔ حالانکہ ایوان ِ بالا کے انتخابات شروع ہونے سے قبل تک حکمراں اتحاد کے پاس 178 ووٹ کی واضح برتری موجود تھی،لیکن سینیٹ انتخابات کے عین آخری لمحات میں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی حکومت کے 16 ووٹ کم ہوگئے اور سید یوسف رضا گیلانی 169 ووٹ حاصل کر کے غیر متوقع طو رپر سینیٹر منتخب ہوگئے۔یاد رہے کہ سینیٹ انتخابات میں تاریخی طو رپر برتری ہمیشہ سے حکومت کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ حکومت کے پاس اراکین اسمبلی کو نوازنے کے بہت سے جائز اور ناجائز طریقے دستیاب ہوتے ہیں۔جیسے سیکرٹ فنڈز سے نقد ادائیگیاں، ترقیاتی فنڈز، ملازمتوں کا کوٹہ، من پسند ٹرانسفر پوسٹنگ وغیرہ۔جبکہ اپوزیشن کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ حکومت اپنی انتظامی قوت کو استعمال کر کے ان کے ووٹ خریدلے گی۔مگر شومئی قسمت کہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ حکومت کے ووٹ کمال مہارت سے اپوزیشن نے خریدلیئے۔۔۔ لگتا ہے کہ کسی نے جادو کروادیا ہے۔

ابھی ایوانِ بالا میں پولنگ کا عمل جاری ہی تھا کہ حکمراں جماعت کے ایم این اے شہریار آفریدی کی جانب سے الیکشن کمیشن سے ایک خط میں یہ درخواست کی گئی کہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث وہ اپنی جماعت کی جانب سے الیکشن کی تیاری میں حصہ نہیں لے سکے تھے اور وہ اپنے ووٹ پر نمبر لکھنے کے بجائے، غلطی سے دستخط کر آئے ہیں اس لیے انھیں دوبارہ، ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔الیکشن کمیشن نے اُن کا یہ عذر ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے، ازسرِ نو ووٹ ڈالنے کی درخواست مسترد کر دی۔جس کے بعد الیکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں پورے شد و مد کے ساتھ یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایک طویل عرصے سے رکنِ پارلیمان رہنے والے شہریار آفریدی اتنے اہم موقع پر اپنا ووٹ خراب کرنے غلطی کیسے اور کیونکر کر سکتے ہیں؟۔واضح رہے کہ شہریار آفریدی پہلی مرتبہ سینیٹ کا ووٹ نہیں ڈال رہے تھے بلکہ وہ پہلے بھی دو مرتبہ سینیٹ کا ووٹ کاسٹ کر چکے ہیں۔ اس لیئے اُن کے اس موقف پر یقین کرنا مشکل ہے کہ لاعلمی کی وجہ سے انہوں نے حفیظ شیخ کے نام کے سامنے دستخط کیے۔ اگر وہ سہواً یہ کام کررہے تھے تو پھر انہیں خاتون امیدوار کے نام کے سامنے بھی دستخط کرنے چاہئے تھے لیکن انہوں نے بیلٹ پیپر پر خاتون کے نام کے سامنے بالکل درست نمبر لگایا۔۔۔ لگتا ہے کہ کسی نے جادو کروادیا ہے۔

برسہا بر س سے زبان زدِ عام ہے کہ سندھ کی سیاست میں پیپلزپارٹی کو سیاسی مشکلات کے گرداب میں پھنسائے رکھنے کے لیئے از حد ضرور ی ہے کہ وفاقی حکومت کے نمائندے یعنی گورنر سندھ کو سائیں پیر پگارا،کا دستِ شفقت لازمی حاصل ہو۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وفاق میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہو، یا پھر تحریک انصاف کی اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن جس بات سے سندھ کی سیاست میں واقعی فرق پڑتا ہے۔وہ یہ ہے کہ کیا وفاقی حکومت کو سائیں پیر پگار ا،کی آشیر باد حاصل ہے یا نہیں۔لہٰذا حالیہ سینیٹ انتخاب میں تحریک انصاف کی حکومت نے سندھ میں اپنی سینیٹ نشستوں کا حصول یقینی بنانے کے لیئے پیر پگاراکے بھائی سائیں سید صدر الدین راشدی کو جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے سینیٹر کی نشست پر کھڑا کیا تھا۔ مگر حیران کن طور پر تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان کے تو دو،دو سینیٹر جی ڈے اے کے ووٹوں سے منتخب ہوگئے مگر جی ڈی اے کا اکلوتااُمیدوار،اور وہ بھی سائیں سید صدرالدین راشدی تحریک انصاف کے سات ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے شکست کھا گیا۔۔۔لگتا ہے کہ کسی نے جادو کروادیا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کا ایک مدت سے سیاسی موقف رہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کو اقتدار کے ایوان سے بے دخل کرنے کا سب سے مناسب اور بہتر راستہ تحریک عدم اعتماد کا ہے۔ لیکن جب صدر مملکت پاکستان عارف علوی نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تو پاکستان پیپلزپارٹی بشمول اپوزیشن الیون نے تحریک عدم اعتماد کا بائیکاٹ کرکے عمران خان کو از خود ہی ”سیاسی واک اوور“ دے دیا۔ حالانکہ اپوزیشن اتحاد کے پاس 160 یقینی ووٹ قومی اسمبلی میں موجود ہیں اور اگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے”سیاسی مہارت“ کے ساتھ اِن ووٹوں کا استعمال کیا جاتاتو وزیراعظم پاکستان عمران خان کو عدم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں سخت مشکلات بھی پیش آسکتی تھیں۔ مگر پاکستان پیپلزپارٹی نے تحریک عد اعتماد کا بائیکاٹ کر کے عمران خان کی حکومت کو گرانے کا سنہرا سیاسی موقع گنوادیا۔جبکہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر اُسے کامیاب بنائیں گے۔لطیفہ تو یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے 368 کے ایوان میں پیپلزپارٹی کی پاس فقط 7 نشستیں ہیں۔۔ لگتا ہے کہ کسی نے جادو کروادیا ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جب سینیٹ الیکشن میں اپنے اُمیدوار حفیظ شیخ کی عبرت ناک شکست کے بعد قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا تو کسی نے اس فیصلہ کو عمران خان کی بلند ہمتی اور اخلاقی جرات سے تعبیر کیا، تو کسی نے اس سیاسی چال کو وزیراعظم کی فطری عجلت پسندی کا مظہر سمجھا،نیز کسی نے پھبتی کسی کہ ”لوجی!اَب آپ اپوزیشن کے دام میں وزیراعظم آگیا“۔ جبکہ کچھ گھاگ قسم کے ٹی وی اینکروں کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ ”تحریک عدم ایک جوا ہے،جس میں وزیراعظم نے اپنی تمام ”سیاسی کمائی“داؤ پر لگادی ہے“۔مگر سب سے زور دار تبصرہ تو مریم نواز نے کیا تھا کہ ”حکمران اتحاد کے اراکین ِ اسمبلی نے اگلے انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹ کے عوض اپنے ووٹوں کا سودا کیا ہے“۔لیکن12 بج کر 12 منٹ پر قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کارروائی شروع ہوتے ہی،اپوزیشن الیون کے ”سیاسی چہرے“ پر بھی پورے 12 ہی بج گئے اور عمران خان 178 ووٹ لے کر دوسری بار وزیراعظم پاکستان منتخب ہوگئے۔یاد رہے کہ پہلی بار انہیں 176 ووٹوں نے وزارتِ عظمی کے منصب پر بٹھایا تھا اوراس بار عمران خان کو 2 ووٹ زیادہ مل گئے۔۔۔ لگتا ہے کہ کسی نے جادو کروادیا ہے۔

یاد ش بخیر! کہ اس کالم کو لکھنے سے قبل ہی پختہ ارادہ کر لیا گیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے سینیٹ انتخابات، اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت،الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئینی ذمہ داریوں اور نو منتخب سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے،علی گیلانی کی جانب سے جاری کردہ ”ووٹ ضائع کرنے کے سیاسی طریقے“ پر مبنی ویڈیو کے متعلق ایک بھی لفظ نہیں لکھا جائے گا۔ دراصل کالم نگار کی پختہ نیت تھی کہ آج کے کالم میں وہ اپنے قارئین کو پاکستان میں رائج اعلیٰ سیاسی اقدار،بلند کردار سیاست دانوں کے اوصافِ جمیلہ کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف علمی،دلائل و براہین سے ثابت کرنے کی تحریری سعی کرے گا کہ میثاقِ جمہوریت کے”سیاسی صحیفے“میں درج آفاقی فرمودات ملک میں جمہوریت کے تسلسل اور استحکام کے لیئے کس قدر اہم اور ناگزیر ہیں۔ لیکن جب کالم مکمل ہوگیا تو کالم نگار سوچ رہا ہے کہ یہ میرے قلم نے کیا کچھ اور کیوں کر لکھ دیا ہے؟۔۔۔لگتا ہے کہ کسی نے جادو کروادیا ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 08 مارچ 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں