Red-Loan-and-Black-Loan

سیاہ قرضہ اور سرخ قرضہ

برسوں سے ایک محاورہ سنتے آئے ہیں کہ ”دنیاکا تمام کاروبا اُدھار پر چلتاہے“۔لیکن اِس کا درست مطلب اور مفہوم اَب کہیں جاکر سمجھ آیا ہے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اِس میں ہمیشہ ہی سے سب کا کاروبار ادھار پر ہی جاری رہاہے اور مستقبل میں بھی دنیا کی معیشت اُدھار کے سائے تلے ہی پھلتی، پھولتی رہے گی۔ یعنی دنیا دو اقسام کے ممالک پر مشتمل ہے۔ایک وہ ہیں جو قرض لیتے ہیں اور دوسرے ممالک وہ ہیں جو اُدھار دیتے ہیں۔اُدھار دینے والے ممالک کو آپ عالمی مہاجن اور ساہوکا ر بھی کہہ سکتے ہیں۔کیونکہ یہ عالمی ساہوکار بغیر سود کے کسی کو بھی قرضہ نہیں دیتے اور قرضہ جاری کرنے کے بعد سود پہلے وصول کرتے اور اپنی اصل رقم بعد میں۔دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد فاتح اور بالادست اقوام نے دنیا بھر پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیئے اقوام متحدہ کے تحت غریب اور مفتوح ممالک کو قرضہ فراہم کرنے کے لیئے عالمی بینک کی بنیاد رکھی تھی۔ عالمی بینک نے اپنے قیام سے لے کر اَب تک دنیا کی معیشت کو اپنے سائے تلے ہی پروان چڑھایا ہے۔ اِس وقت دنیا میں جدید معیشت کی تفہیم کے لیئے جتنی اصطلاحات زیر استعمال ہیں سب کی سب عالمی بینک میں خدمات دینے والے عالمی مہاجنوں کے ذہنوں کی ہی اختراع ہیں۔

پیسے کی قیمت،سونے کی قیمت کس اُصول کے تحت بڑھے گی او ر کس ضابطے کے تحت کم ہوگی؟۔ سونا کو کب پر لگائے جائیں؟ اور کب سونے کے پر کتر کر تیل کی قیمتوں کو آگ لگائی جائے گی۔ یہ سب کچھ عالمی بینک میں خدمات انجام دینے والے مہاجن اور ساہوکار ہی طے کرتے ہیں۔ اِس بابت اُدھار لینے والے ممالک کو لب کشائی کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی۔دلچسپ با ت یہ ہے کہ جب سے عالمی بینک معرض ِ وجود میں آیا ہے تب سے لے کر اَب تک فقط ایک ہی بات کا پورے شد و مد کے ساتھ پروپیگنڈہ کیا جاتارہا ہے کہ غریب او رترقی پذیر ممالک کی معیشت عالمی بینک اور اس کے ذیلی اداروں سے قرض لیئے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی غریب ملک عالمی بینک سے قرض لیتا ہے تو اُس کی معاشی ترقی کی ریٹنگ کو منفی سے مثبت کردیا جاتاہے۔بعض اوقات تو ابھی عالمی بینک کے ملازمین،قرض خواہ ملک کے نمائندہ سے متوقع قرضہ کے حصول پر گفت و شنید ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ عالمی معاشی اداروں کی رپورٹوں میں قرض کے درخواست گزار ملک کی معیشت اُوپر کی جانب پرواز کرنے لگتی ہے۔ یہ سارا بندوبست اور ترغیب غریب اور ترقی پذیر ممالک کو فقط اِ س لیے با ر بار دی جاتی ہے تاکہ یہ ممالک زیادہ سے زیادہ عالمی اداروں سے قرضے حاصل کر کے اِن کے بے دام غلام بنتے جائیں اور عالمی مالیاتی اداروں کے پیچھے چھپ کے بیٹھے ہوئے اصل مہاجن دنیا کی معیشت کو اپنی مٹھی میں قید رکھ سکیں۔

قرض دینے اور قرض لینے کے اِس گورکھ دہندہ پر اُس وقت تک کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے کو کوئی برائی نظر نہیں آئی تھی،جب تک کہ دنیا کے بیشتر ممالک کو عالمی بینک یا یوں کہہ لیں عالمی سپر پاور امریکا قرضہ فراہم کررہا تھا۔ لیکن جیسے ہی عالمی قرضے فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں اچانک سے چین کا اضافہ ہوا ہے،تب سے لے کر اَب تک عالمی بینک کے زیر نگیں کام کرنے والے ہر معاشی ادارے کو غریب اور ترقی پذیر ممالک کے مقروض ہونے پر سخت تشویش ہونے لگی ہے اور عالمی قرضوں کے مضر اثرات کے بارے میں آئے روز نت نئی تحقیقاتی رپورٹس سامنے آرہی ہیں مگر عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب رپورٹس اُن قرضوں کے متعلق ہی آرہی ہیں جنہیں چین فراہم کررہا ہے۔ ان رپورٹس کا لب لباب یہ ہے کہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کی معیشت کے لیئے چینی قرضے سخت ضرررساں اور نقصان کا باعث ہیں اور اِن رپورٹس میں تجویز یہ دی جارہی ہے کہ اگر یہ ممالک مستقبل میں معاشی عدم استحکام سے بچنا چاہتے ہیں تو وہ چینی قرض لینے سے صاف انکار کردیں یا اِن قرضو ں کی بابت اپنے پرانے عالمی مہاجن عالمی بینک کو تفصیلات کے ساتھ مطلع کریں۔اِن رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں ایک سو بائیس ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ افریقی ممالک کی حالت تو انتہائی بری ہے۔یعنی دنیا کا سب سے پسماندہ اور کم ترقی یافتہ براعظم سمجھے جانے والے افریقہ میں تو بہت سے ممالک کو درپیش قرضوں کی بحرانی صورت حال اتنی شدید ہو چکی ہے کہ اب ان ممالک نے اپنے ذمے قرضوں کی واپسی کے لیے پریشان ہونا اور کوئی کوششیں کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔

یاد رہے کہ دنیا کے ضرورت مند اور غریب ممالک کو مختلف عالمی تنظیموں اور امیر ریاستوں کی طرف سے جو رقوم قرض کے طور پر فراہم کی جاتی ہیں، ان کے لیے شرح سود اتنی کم رکھی جاتی ہے کہ ان قرضوں کو بعدازاں ’’سستے قرضوں“ کے طور پر بیچابھی جاسکتا ہے۔لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ ایسے سستے قرضے لینے والے بہت سے ممالک ایسا کرتے ہوئے اپنے ممکنہ وسائل سے بھی زیادہ قرضہ لے لیتے ہیں اور یوں وہ ایک ایسے جال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں، جس سے نکلنا ان کے لیے کبھی ممکن ہی نہیں ہوپاتا۔صرف 2000 سے لے کر 2017 تک چین نے براعظم افریقہ کے ممالک کو ان کے ہاں بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر اور دیگر منصوبوں کے لیے جتنے قرضے دیے، ان کی مجموعی مالیت 143 ارب یورو یا 161 ارب امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔خیال رہے کہ عالمی بینک اور اس کے ذیلی اداروں کے برعکس چینی حکومت نے بہت سے افریقی ممالک کے ذمے بے تحاشہ قرضے معاف بھی کرچکی ہے۔ چینی ساہوکار کا یہ وہ مثبت پہلو ہے، جس نے ماضی کے عالمی مہاجن امریکا کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ ویسے تو دنیا بھر کے ممالک میں مالی امداد اور کاروباری مقاصد کے لیے دیے گئے عالمی قرض ہمیشہ سے امریکی خارجہ پالیسی کا اہم ترین حصہ رہے ہیں۔ لیکن امریکہ کے مقابلے میں جب چین کی بات ہوتی ہے تو عالمی ذرائع ابلاغ پر ایک لفظ بہت زیادہ سننے اور پڑھنے کو ملتاہے اور وہ لفظ ہے’’ڈِیٹ ڈپلومیسی“ یعنی قرض کی سفارتکاری کے ذریعے دنیا میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنا۔ہمارے خیال میں یہ لفظ بلاوجہ ہی چین کے ساتھ خاص طو رنتھی کردیا گیا ہے حالانکہ یہ کام تو گزشتہ کئی عشروں سے امریکہ اور اس کے حلیف دیگر مغربی ممالک بھی کرتے رہے ہیں۔لیکن اَب یہ ہی لفظ چین کے ساتھ جوڑ کر ایک بالکل منفی انداز میں پیش کیاجارہاہے۔

چین کو ایک سخت گیر عالمی ساہوکار کے طور پر پیش کرنے والے بین الاقوامی معاشی ادارے یہ بھول جاتے کہ کچھ عرصہ پہلے اِسی منصب پر وہ بھی فائر تھے اور اَب اگر اِس منصب پر چین براجمان ہوچکا ہے تو اِس میں برا کیا ہے؟۔آخر چین بھی تو دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو قرض ہی دے رہاہے اور اُن ممالک کے رہنماؤں کی مرضی اور آشیر باد سے ہی دے رہاہے۔ایک عالمی معاشی طاقت کے طور پر قرض دینے والے ملک کی حیثیت سے چین کی حیثیت دو دہائی قبل مضبوط ہونا شروع ہوئی تھی۔ یہ ہی وہ وقت تھا،جب چین نے باہر کی دنیا کے لیے زیادہ کھلے پن کی پالیسی اپنائی۔کیونکہ اِس دوران چین میں معاشی ترقی تیزی سے ہو رہی تھی اور بین الاقوامی معاشی منظرنامے پر چین کی اہمیت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ اس وقت چین دنیا کا سب سے بڑا سرکاری قرض دینے والا ملک بن چکا ہے۔ یعنی دنیا کی کوئی بھی حکومت اتنا قرض نہیں دیتی جس قدر چین دیتا ہے۔یاد رہے کہ چین کا باقی دنیا (ترقی یافتہ ممالک سمیت) پر پانچ لاکھ کرور ڈالر سے زیادہ کا قرضہ ہے۔ یہ تعداد دنیا کی جی ڈی پی کا تقریبا چھ فیصد کے برابر بنتی ہے۔ 20 سال پہلے یہ قرض جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد ہوا کرتا تھا۔اگرچہ چین ہر طرح کی معیشتوں کو قرض دیتا ہے لیکن کم آمدنی والی معیشتوں پر اس کا غلبہ زیادہ ہے۔چین کے دس سب سے بڑے مقروض ممالک میں جبوتی، ٹونگا، مالدیپ، کانگو، کرغزستان، کمبوڈیا، نائجر، لاؤس، زیمبیا اور ساموا شامل ہیں۔اگر ہم چین کے سب سے زیادہ 50 مقروض ممالک کے بارے میں بات کریں تو ان ممالک پر اوسط قرض جو 2005 میں عالمی جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم تھا وہ2017 میں بڑھ کر جی ڈی پی کے 15 فیصد سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔دوسرے زاویہ سے دیکھیں تو اس گروپ کا 40 فیصد بیرونی قرض چین سے حاصل ہوتا ہے۔ اس گروپ میں چین سے سب سے زیادہ قرض لینے والوں میں لاطینی امریکہ کے تین ممالک، وینزویلا، ایکواڈور اور بولیویا شامل ہیں۔

امریکہ اور عالمی بینک کے مقابلہ میں چین کے بڑھتی ہوئی معاشی حیثیت کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ چین اپنی پیشرو عالمی طاقت امریکہ کے مقابلہ میں بہت ہی نرم شرائط پر زیادہ سے زیادہ قرضہ فراہم کرنے کی منفرد پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ اکثر و بیشتر وہ اپنے قرضہ معاف بھی کردیا کرتا ہے۔ یہ وہ خصوصی ترغیب ہے جو فی الحال چین کے علاوہ کوئی اور ملک دنیا کے کسی بھی ترقی پذیر یا غریب ملک کو دینے کی مستحکم پوزیشن میں نہیں ہے۔ شاید اسی لیئے ہر ملک کی کوشش ہے کہ وہ عالمی بینک یا اس کے ذیلی اداروں سے سخت شرائط پر قرضے حاصل کرنے کے بجائے کیوں نہ چین سے نرم ترین شرائط پر زیادہ سے زیادہ سے قرضے حاصل کرلے۔ یہ صورت حال عالمی بینک اور امریکا کے لیئے قطعی ناقابلِ قبول ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ وہ کچھ کربھی نہیں سکتے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں میں چین نے اپنے آپ کو معاشی طور پر اتنا زیادہ مضبوط بنا لیا ہے کہ وہ اگر چاہے تو دنیا کے تمام ترقی پذیر اور غریب ممالک کی طرف واجب الادا قرضہ معاف کرسکتاہے اور یہ کرنے سے اُس کی معاشی رفتار یا حیثیت پر ذرہ برابر فرق بھی پڑنے والا نہیں ہے۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ ایسا کرنے سے چین دنیا کے ترقی پذیر اور غریب کے سامنے ایک ایسا اَن داتا اور مسیحا ضرور بن سکتاہے،جسے دنیا خوشی خوشی ایک عالمی طاقت کے طور پر تسلیم کرلے گی۔ یعنی اَب دنیا تیزی کے ساتھ امریکہ اور عالمی بینک کے سیاہ قرضوں کی دلدل سے اپنے آپ کا نکال کر چین کے سُرخ قرضہ کی ”معاشی وادی“ کی طرف اپنے قدم بڑھا رہی ہے۔ کیا چین کی جانب سے فراہم کیا جانے والاسُرخ قرضہ دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کی تقدیر کو بدل سکتاہے؟۔اس کا جواب بھی آئندہ چند برسوں میں مل ہی جائے گا مگر جب تک اِس سوال کا واضح جواب نہیں مل پاتا تب تک سب انتہائی تسلی اور خاموشی کے ساتھ سیاہ قرضہ اور سُرخ قرضہ کی ایک دوسرے پر غلبہ کی جنگ ملاحظہ فرمائیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 13 اگست 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں