Speaker Agha Siraj Durrani

سندھ میں بڑی گرفتاریوں کی تیاریاں

بادی النظر میں نیب کی طرف سے اسپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی کی گرفتاری کے واقعہ کو ایک ”روایت شکن“ احتسابی کارروائی قرار دیا جاسکتاہے۔ کیونکہ جمہوری دورِ حکومت میں ”اسپیکر“ کی گرفتاری اپنی نوعیت کا واحد ایسا منفرد واقعہ ہے جس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ شاید دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں بھی مشکل سے ہی مل سکے۔اسپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی کی گرفتاری نے فقط ”پارلیمانی روایات“ کو ہی نہیں توڑا ہے بلکہ پیپلزپارٹی کے کئی رہنماؤں کے سیاسی حوصلوں کو بھی بُری طرح سے توڑ کر رکھ دیا ہے۔صاف دکھائی دے رہا ہے کہ غیر متوقع حالات میں بالکل غیر متوقع انداز میں اسپیکر سندھ اسمبلی کی ہونے والی اِس گرفتاری نے پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کو زبردست ”سیاسی صدمہ“ سے دوچار کیا ہے۔شنید یہ ہی ہے کہ اس”سیاسی صدمہ“سے بہ حفاظت ”سیاسی بحالی“کے لیئے پیپلزپارٹی کو بالعموم اور سندھ حکومت کو بالخصوص کافی وقت درکار ہوگا۔ فی الحال تو نیب کی بے رحم احتسابانہ کارروائیوں کے باعث پیپلزپارٹی کی صفوں میں ایک سراسیمگی سی کیفیت طاری ہے اور حفظِ ماتقدم کے طور پر اراکین سندھ اسمبلی کی اکثریت نے ضمانت قبل ازگرفتاری کے لیئے سندھ کی مختلف عدالتوں سے رجوع کرنا بھی شروع کردیا ہے۔ویسے بھی آج کل پیپلزپارٹی میں اُس سیاسی رہنما کو سب سے زیادہ خوش قسمت تصور کیا جارہاہے جس کی جیب میں ”ضمانت قبل از گرفتاری“ کا پروانہ ئ موجود ہے۔

بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے نیب کی طرف سے اسلام آباد سے پراسرار انداز میں آغا سراج درانی کی گرفتاری اور پھر اُس کے بعد اُن کے گھر میں چھاپہ مار کارروائی پر کڑی تنقید بھی کی جارہی ہے۔تنقید کرنے والے جن میں اکثریت کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے کا ملتا جلتا موقف یہ ہے کہ ”اسپیکر سندھ اسمبلی“ کی گرفتاری نے پاکستان کی جمہوری تاریخ میں کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی ہے جبکہ سوچنے والی بات تو یہ بھی ہے کہ آغا سراج درانی کی طرف سے پروڈکشن آرڈر کے تحت چند گھنٹوں کی مختصر رہائی پا کر سندھ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرنے کے عمل کو بھی دنیا بھر میں رائج جمہوری اُصولوں کے تحت کوئی بہت اچھی روایت قائم کرنا نہیں کہا جاسکتا۔کتنا اچھا ہوتا کہ اگر اسپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی اسمبلی کے اجلاس میں ایک عام رُکنِ اسمبلی کی حیثیت سے شرکت کرتے اور اپنے اُوپر لگنے والے جھوٹے الزامات کا دفاع کرنے کے لیئے اسپیکر کی کرسی یا عہدے کو استعمال کرنے سے حتی المقدور حد تک اجتناب کرتے،کیونکہ جتنا بڑا اور اہم عہدہ ہوتا وہ آپ سے اتنا ہی زیادہ اخلاقی ذمہ داری کا متقاضی بھی ہوتا ہے۔بہرحال ہماری رائے میں تو آغا سراج درانی کا یہ ایک چھوٹا سا عمل اخلاقی حوالے سے اُن کی ساکھ کو کافی حد تک مضبوط کرسکتا تھا،جبکہ یہ بھی عین قرین قیاس تھا کہ اپنے اِس طرز عمل کی بدولت اُنہیں پورے ایوان کی زبردست سیاسی حمایت بھی دستیاب ہوجاتی اور یوں اُن کے حق میں پیش کی جانے والی قرارداد کثرت رائے کے بجائے متفقہ طور پر منظور ہونے کا خصوصی شرف حاصل کرلیتی۔لیکن آغا سراج درانی کی ذرا سی بے احتیاطی نے سندھ کی بعض اپوزیشن جماعتوں کو وہ کمزور سا جواز مہیا کردیا،جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُنہوں نے اِس مشکل ترین وقت میں بھی اپنے”اسپیکر“ کو تنہا چھوڑ نے میں لمحہ بھر کا تردد نہیں کیا۔جس طرح کا معاندانہ رویہ سندھ اسمبلی میں آغا سراج درانی کے حق میں قرارداد پیش کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اختیار کیا گیا ہے اُس سے تو یہ تاثر مزید مستحکم ہوا ہے کہ آغا سراج درانی سندھ اسمبلی میں صرف پاکستان پیپلزپارٹی کے ہی اسپیکر ہیں اور دیگر جماعتوں کے لیئے وہ اُس طرح سے قابلِ قبول شخصیت نہیں جس طرح سے ایک اسپیکر کو اپنی اسمبلی میں ایک غیر جانبدار سربراہ کے طور پر قابلِ قبول یا ہردلعزیز ہونا چاہئے۔

اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری نے یہ بات بھی پوری طرح صاف کردی ہے کہ نیب کا ادارہ اپوزیشن کی طرف سے ہونے والی تنقید کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتا، کیونکہ گزشتہ چند ماہ سے جتنی سخت تنقید و الزامات اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے نیب پر لگائے جاچکے ہیں، اُس کا عام سے نتیجہ تو یہ ہی ظاہر ہونا چاہئے تھاکہ نیب کا احتساب کے لیئے جاری سیاسی گرفتاریوں کا سلسلہ آہستہ آہستہ سست روی کا شکار ہوکر مکمل طور پر تھم جاتالیکن شاید نیب کا ادارہ اپوزیشن رہنماؤں کی طرف اپنے اُوپر ہونے والی تمام تر تنقید کا اثر اُلٹا لے رہا اور بجائے احتسابی کارروائیوں میں دفاعی طرزِ عمل اختیار کرنے کے، روز افزوں سخت احتسابی ردعمل کا مظاہر کررہاہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں نیب کی یہ احتسابی پیش قدمی اور کس کس حکومتی و سیاسی رہنما کو اپنا شکار بناتی ہے۔ بظاہر تو ایک عام آدمی کے لیئے اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری یہ ثابت کرنے کے لیئے کافی و شافی ہے کہ جس نیب زدہ سیاسی رہنما پر بھی نیب کی تحقیقات جاری ہیں، اُس ”نیب زدہ“ کو بڑے سے بڑا جمہوری و سیاسی عہدہ کی چھتر چھایہ بھی نیب کی گرفتاری سے تحفظ کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتی۔نیب کی اِس احتسابی طاقت کا اصل سرچشمہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے انسدادِ کرپشن کی مہم پر کسی بھی کسی قسم کی مفاہمت نہ کرنے وہ اعلان ہے۔جس کا اعادہ کرنا وزیراعظم پاکستان کسی بھی روز نہیں بھولتے۔احتساب کے حق میں اگر وزیراعظم پاکستان اِسی طرح سے ثابت قدم رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ جب نیب کا ادارہ حقیقی معنوں میں کرپشن کرنے والوں کے لیئے خوف سے ایک قدم آگے بڑھ کر ”سیاسی موت“ کی علامت بن جائے گا۔
کچھ اجنبی سے لگے آشنا دریچے بھی
کرن کرن جو اُجالوں کا احتساب ہوا

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 07 مارچ 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں