Workplace

کام نہیں، صرف نام بدلیں

عام مشاہدہ کی بات ہے کہ آ پ کسی بھی محفل میں چلیں جائیں،کسی رشتہ دار یا دوست سے ملیں یا کسی اجنبی سے آپ کی سرِ راہ ملاقات ہوجائے، ابتدائی سلام و دُعا کے بعد سب سے پہلا سوال جس کا آپ کو اپنے مخاطب کی طرف سے سامنا کرنا پڑے گا وہ کچھ یوں ہوگا کہ ”آج کل آپ کیا کر رہے؟“ اگر آپ کسی بھی ادارے میں انتہائی اعلی عہدے پر براجمان ہیں تو آپ بلا کسی توقف جھٹ سے کہہ دیں گے کہ میں فلاں بنک میں منیجر ہوں،یا کسی سرکاری ادارے میں افسر ِ خاص ہوں اور یہ جواب دے کر آپ کو انتہائی مسرت کا احساس بھی ہوگا۔یہ سوال مصیبت تب بن جائے گا جب آپ کسی ایسی ملازمت سے وابستہ ہوں جسے ہمارے معاشرے میں ”چھوٹی ملازمت“ سمجھا جاتا ہے تو پھر غالب امکان ہے کہ آپ کا جواب عموماً اس طرح کے ذو معنی جملہ پر مشتمل ہوگاکہ ”بس گزارا ہورہا ہے زندگی کی گاڑی اچھی چل رہی ہے اللہ کا شکر ہے کہ روزگار سے لگا ہوا ہوں“۔
لیکن ہمارے معاشرے میں یہ جملہ کوئی اتنا زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوتا،کیونکہ ہم لوگوں میں ہر بات کی تہہ تک جانے کی جو خداداد صلاحیت پائی جاتی ہے اس کی بدولت وہ آپ سے آپ کی ملازمت کی بابت تمام تر تفصیلات پوچھ کر ہی دم لے گا۔اگر معاملات صرف یہیں تک بھی محدود رہ جائیں تو شاید آپ کے لیئے کوئی مسئلہ نہ ہو۔طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ اصل بات چیت تو اب شروع ہوتی ہے اور پھر آپ کو یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ”بھئی یہ ”ڈیٹا انٹری آپریٹر“ کا کام بھی کوئی کام ہوتا ہے،اس کام میں نہ عزت ہے نہ پیسہ، تم کوئی اور ملازمت کیوں نہیں کرلیتے“ اس طرح کے کاٹ دار جملے سننے کے بعد کس آدمی کا اپنے کام میں دل لگے گا۔اور یوں آپ کا کام آپ کی نظر میں بھی چھوٹا بنا دیا جاتا ہے۔یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہر روز اتنی بار ہوتا ہے کہ ہماری ملازمت ہمارے لیئے ”مجبوری کا سودا“ بن کر رہ جاتی ہے۔لیکن یہ گورکھ دھندا صرف مشرق میں ہی اب تک چل رہا ہے، مغرب نے جہاں ہرکام اور ہرشعبہ میں جدت پیدا کرلی ہے وہیں اہلِ مغرب نے اپنے ملازمین کو قابلِ فخر اور قابلِ ذکر شناخت فراہم کرنے کے لیئے انتہائی جدت پسندی سے کام لے رہے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک عام سی ملازمت کو عنوان اور پہچان کے حوالے سے تخلیق اور جدت کی معراج پر پہنچا دیا ہے۔جس کی چند دلچسپ مثالیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
موبائل مرمت کرنے والے ہوگئے جینئس
شاید آپ حیران ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں موبائل فون کی مرمت کرنے والے کسی شخص کو اگر ایپل کمپنی میں ملازمت مل جائے تو وہ پلک جھپکتے ہی میں ایک عام موبائل مکینک سے ”جینئس ہوجائے گا کیونکہ ایپل کمپنی،اپنے اسمارٹ فون،ٹیبلٹ اور ایپل اسٹور میں تیکنیکی معاونت فراہم کرنے والے تمام ملازمین کو ”جینئس“ کے نام سے پکارتی ہے اور جس جگہ ایپل کے یہ جینئس کام کرتے ہیں اُسے”جینئس بار“ کہا جاتا ہے۔آپ ذرا ایک لمحہ کے لیئے تصور تو کریں کہ آپ ایپل کمپنی میں موبائل فون مرمت کرتے ہیں لیکن آپ کے وزیٹنگ یعنی تعارفی کارڈ میں آپ کے نام کے عین نیچے ”جینئس“ لکھا ہو آپ کو کیسا محسوس ہوگا اور مزید یہ بھی سوچیئے گا کہ جب یہ کارڈ آپ کسی کو پیش کریں گے تو پھر آپ کے محسوسات کون سے آسمان کی بلندی پر ہوں گے شاید یہ بتانے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔
برگر بنانے والے کہلائیں گے،سینڈویچ آرٹسٹ
امریکن فاسٹ فوڈ کمپنی سب وے کی انتظامیہ نے نومبر 2007 میں اپنے ملازمین سے کمپنی کی بہتری کے لیئے آراء طلب کی،جواب میں کمپنی کو ملازمین کی طرف سے یوں تو بے شمار آراء موصول ہوئی مگر ایک ملازم کی طرف سے ملنے والے گمنام خط نے کمپنی انتظامیہ کو حیران کردیا،ملازم نے خط میں تحریر کیا تھا کہ”جب تک ہمیں آپ کی طرف سے عزت نہیں ملے گی کمپنی کو شہرت کیسے مل سکتی ہے۔ ہمیں بڑا عجیب سا لگتا ہے جب ہمیں کمپنی میں سینڈویچر یا سینڈویچ میکر یعنی برگر بنانے والا کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اگر آپ واقعی کمپنی کی بہتری چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے نام سے مخاطب کریں جس سے ہمیں احساسِ کمتری کا گمان نہ ہو“۔گمنام ملازم کے اس گمنام خط نے کمپنی انتظامیہ کو اپنے ملازمین کے لیئے کوئی اچھا سا نام تجویز کرنی کی ترغیب دی۔آخر کار کمپنی انتظامیہ نے اپنے ملازمین کو ”سینڈویچ آرٹسٹ“ کے علاوہ کچھ اور کہنے پر پابندی عائد کردی۔اس وقت سب وے دنیا کی دوسری بڑی فاسٹ فوڈ کمپنی ہے اور دنیا کے 112 ملکوں میں اس کے کم و بیش 45000 ریسٹورنٹ قائم ہیں جہاں کام کرنے والے ملازمین کو ”سینڈوچ آرٹسٹ“کہا جاتا ہے۔ کمپنی انتظامیہ کا ماننا ہے کہ جب سے انہوں نے اپنے ملازمین کو ”سینڈوچ آرٹسٹ“ کا خوبصورت سرنام دیا ہے اُن کی کمپنی کی ترقی میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ملازم بنے ”انر گیسٹ“یعنی ذاتی مہمان
امریکہ میں اطالوی ریسٹورنٹس میں ملازمین کو ”انر گیسٹ“ یعنی ذاتی مہمان کہاجاتا ہے۔کمپنی کے چیف ایگریکٹواسٹیو ڈیفلیپو نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے ادارے کی تمام شاخوں میں لفظ ”ایمپلائی“ یعنی ملازم استعمال کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔اُن کا موقف ہے کہ لفظ ”ملازم“ انسان کو احساسِ کمتری کا شکار بنا تاہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کاروبار کرنے سے پہلے میں نے بھی کئی جگہ ملازمت کی جب مجھے وہاں ملازم کہہ کر کسی سے بھی متعارف کروایا جاتا تھا تو مجھے سخت توہین کا احساس ہوتا تھا میں نے اُس وقت ہی سوچ لیا تھا کہ اگر میں نے کبھی کاروبار کے میدان میں قدم رکھا تو اپنے ملازمین کو اس توہین آمیز لفظ سے قطعاً نہیں پکاروں گا اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے اپنے ساتھ کیا ہوا وعدہ نہ صرف یاد رکھا بلکہ پور ا بھی کیا۔ آج میرے پاس جو بھی ملازمت کے لیئے آتا ہے وہ یہاں ایک بدلا ہو ا ماحول پاتا ہے۔ہم ہر وقت اپنے ملازمین کو عزت احترام کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ہم اپنے پاس کام کرنے والوں کو اپنا ذاتی ملازم نہیں بلکہ اپنا انر گیسٹ یعنی”ذاتی مہمان“ سمجھتے ہیں“۔
ایچ آر کہلانے لگا،ڈیپارٹمنٹ آف کلچریعنی محکمہ تہذیب و تمدن
ملازمت کے لیئے جس نے کبھی انٹرویو دیا ہے اچھی طرح جانتا ہے کہ ایچ آر یعنی ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کسے کہا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں نوجوان ازراہِ مذاق اسے ”مین سورس ڈیپارٹمنٹ“  یعنی”سب سے بڑا سفارشی محکمہ“ بھی کہتے ہیں۔ کینیڈاکی سافٹ وئیر کمپنیوں نے ہیومن ریسورس یعنی ایچ آر کو ”ڈیپارٹمنٹ آف کلچر“ یعنی”محکمہ تہذیب و تمدن“جیسا دل کو باغ باغ کردینے والانام دیا ہوا ہے۔منتظمین کا کہنا ہے کہ ”ہمارے ادارے میں کام کرنے والے کارکنان میں سے جو سب سے زیادہ مہذب اور تہذیب کا مظاہرہ کرنے والے افراد ہوتے ہیں،صرف انہیں ہی ”ڈیپارٹمنٹ آف کلچر“ میں تعینات کیا جاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس ملازمت کے لئے آنے افراد ملازمت لے کر بھلے ہی نا جاسکیں، لیکن وہ ہماری کمپنی کے بارے میں ایک اچھا تاثر لے کر ضرور جاتے ہیں“۔
استقبالیہ یعنی ریسیپشنسٹ بن گئے، ڈائریکٹر آف فرسٹ ایمپریشن
ہو گٹن میفلن ہارکورٹ کمپنی کا امریکہ کے ان بڑے پبلشرز میں شمار ہوتا ہے جن کے پاس تعلیمی نصاب کے تمام تر مواد کی چھپائی اور ترسیل کی ذمہ داری ہے اس کمپنی میں چار ہزار سے زائد ملازمین اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کمپنی میں ریشیپشنسٹ یا استقبالیہ پر کام کرنے والے ملازمین کو ”ڈائریکٹر آف فرسٹ ایمپریشن“ کے دلفریب نام سے پکارا جاتا ہے۔
سیکورٹی منیجر ہوں گے اب،ڈائریکٹر آف ایتھیکل ہیکنگ
مایہ ناز امریکن کمپیوٹر سیکورٹی کمپنی پری ڈیکٹیو سسٹم جس کے بیشتر ملازمین ہیکرز کے حملوں سے متاثرہ کمپنیوں کو اپنی خدمات اورمدد فراہم کرتے ہے۔اس کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین کو سیکورٹی منیجر کے کے عامیانہ نام کے بجائے ”ڈائریکٹر آف ایتھیکل ہیکنگ“ کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ منتظمین کے خیال کے مطابق”اس لفظ سے کام کرنے والے کارکنان کو ہیکرز کے مقابلے میں جوابی ہیکنگ کرتے ہوئے اخلاقی برتری کا احساس ہمہ وقت رہتا ہے“۔
ماسٹر آف ڈیزاسٹر یا خطروں کے کھلاڑی
میپ انفو دنیا بھر میں نتہائی حساس نوعیت کی تیکنیکی خدمات اپنے صارفین کرتی ہے،اس کمپنی کے کام کی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کمپنی مائیکروسافٹ اور اوریکل انٹرنیشنل جیسی کمپیوٹر جائنٹ کمپنیوں کو بھی اہم ترین سافٹ وئیر بنانے میں تیکنیکی معاونت فراہم کرتی ہے۔اس کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین کو ”ماسٹر آف دیزاسٹر“یعنی خطروں کے کھلاڑی کہا جاتاہے۔کمپنی کے صدر مارک کیٹنی  کا کہنا ہے کہ”ہمارے ہاں کام کرنے والے افراد کے لیئے اس سے بہتر جاب ٹائٹل نہیں ہوسکتا۔”ماسٹر آف دیزاسٹر“ یعنی”خطروں کے کھلاڑی“کے طرزِ تخاطب سے ہمارے ملازمین کو جس اہمیت کا احساس ہوتا ہے اس سے ہمیں اپنے کام کے معیار کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے“۔
اس ضمن میں تحقیقات کیا کہتی ہیں
لندن بزنس آف اسکول کے پروفیسر ڈین کیبل کا ملازمین کے عہدوں کے نت نئے نام رکھنے کے حوالے سے کہنا ہے کہ”دفاتر میں کام کرنے والے کارکنان کو بہتر بنانے اور بھرتی کو فروغ دینے کے لیئے انتہائی ضروری ہے کہ نوکری کے عنوانات کو کئی دہائیوں سے جاری روایتی عنوانات سے ہٹ کر اُن کو تخلیقی اور پرکشش عنوانات کے ساتھ تبدیل کردیا جائے کیونکہ پرانے عنوانات کارکنان کو اپنی طرف متوجہ کرنے بری طرح ناکام رہے ہیں۔ہمیں لوگوں کو شناخت کے لیئے ایسے نام دینے چاہئے جن کی وہ ہم سے توقع رکھتے ہیں ناکہ ایسے عہدے جنہیں دوسروں کو بتاتے ہوئے انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے“۔پروفیسر ڈین کیبل کا مزید کہنا کہ”اس منفرد موضوع پر عملی تحقیق کا خیال پہلی بار 2014  کے اوائل میں آیا تھا جب میری ٹیم کے ایک رکن نے مجھے بتایا کہ کئی بڑی کمپنیاں اپنے کارکنان کی کارکردگی کو بڑھانے کے لیئے اُن کے عہدوں کو نت نئے نام دے رہی ہیں جیسے ڈزنی لینڈ نے اپنے کمپنی میں مالی کا کام کرنے والے کارکنان کو ”کاسٹ ممبرز“ اور ملٹی میڈیاانجئینیر ز کو ”امیجی نر“  سے مخاطب کرنا شروع کردیا ہے۔یہ سن کر مجھے انتہائی خوشگوار حیرت کا احساس ہوااور میرے اندر بھی یہ خواہش بیدار ہوئی کہ اس حوالے سے میں اور میری ٹیم کے دیگر اراکین بھی عملی طور تحقیق کریں کہ آیا کیا یہ آئیڈیاز واقعی کام بھی کرتے ہیں یا نہیں اور جب میں نے مختلف اداروں اور ان کے کارکنان کے ساتھ مل کر اس ضمن میں عملی کام کا آغاز کیا تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ واقعی اس طرزِ عمل کو اپنا کر ادارے اپنے ملازمین اور اپنے ادارے کی کارکردگی میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں۔ ہماری تحقیق نے ہم پریہ منکشف کیا کہ کارکنان کے عہدوں کے تخلیقی عنوانات منتخب کرنے سے 16 فیصد کارکنان اپنے کام سے بہ نسبت دوسروں ملازمین کے زیادہ مطمئن پائے گئے جبکہ 11 فیصد ملازمین کا اپنی کمپنی سے تعلق مضبوط ہونے کے بھی اشاریے میسر آئے۔ کیسے صرف ایک لفظ تبدیل کرنے سے ملازم بہت زیادہ حوصلہ افزائی محسوس کرتے ہوئے اپنے کام میں دلچسپی لینے لگ جاتا ہے۔ چاہے یہ بات آپ کو کتنی ہی حیران کن اور عجیب کیوں نہ لگے مگر بہر حال یہ سچ ہے اور اگر دیکھا جائے توکسی ادارے میں کام کرنے والے ملازم کو اچھے لفظ سے پکارنا کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں کہ جسے ادارے کے بہتر مفاد میں ا ختیار نہ کیا جاسکے“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 25 فروری 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

کام نہیں، صرف نام بدلیں” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں