Shab e Qadar

شب قدر کی عظیم الشان فضیلت اور سعادت

رمضان کی راتوں میں ایک رات شب قدر کہلاتی ہے جو بہت ہی خیر وبرکت والی رات ہے اور جس میں عبادت کرنے کو قرآن کریم (سورۃ القدر) میں ہزار مہینوں سے افضل بتلایا گیا ہے۔ ہزار مہینوں کے 38 سال اور 4 ماہ ہوتے ہیں۔ گویا اِس رات کی عبادت پوری زندگی کی عبادت سے زیادہ بہتر ہے۔ اور ہزار مہینوں سے کتنا زیادہ ہے؟ یہ صرف اللہ ہی کو معلوم ہے۔اس رات کو ”شبِ قدر“کہنے کی ایک سے زائد وجوہات بیان کی جاتی ہیں،پہلی یہ کہ ”شبِ قدر“ فارسی لفظ ہے،جس کے معنی ہیں ”رات“اور ”قدر“تقدیرسے ہے جس کے معنی مقرر کرنا،تجویز کرنا،اور تقدیر الٰہی کے ہیں،تو شب قدر کے معنی تقدیر کی رات کے ہیں،اور اس رات میں ہر آدمی کا رزق وروزی مقرر کیا جاتا ہے،عمر لکھی جاتی ہے،ہر طرح کے فیصلے لکھ کر ذمہ دار فرشتوں کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں،س لئے اسکو شبِ قدر کہتے ہیں اور دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ شبِ قدر کے معنی عزت وعظمت اور شرافت کے ہیں اور اس رات میں جو کتاب (قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر)اتاری،وہ بھی قابلِ قدر ہے اور جس پیغمبرپر اتاری وہ بھی قابلِ قدر ہے،اور جس امت پر اتاری وہ بھی امتوں میں سب سے بہتر امت ہے، تو ان قابلِ قدر چیزوں کی وجہ سے اس کو شبِ قدر کہتے ہیں، جس کے معنی ہوئے عظمت والی رات۔ جبکہ عربی میں لیل کہتے ہیں ”رات“ کو اور قدر کے معنی عربی لغت کے اندر”قدر و منزل“ کے ہیں یعنی انتہائی تعظیم والی رات۔سورۃالقدر میں اس رات کی فضیلت اور اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی رحمتوں اور برکتوں کا خاص ذکر فرمایا گیا ہے اور یہاں تک بتا دیا کہ یہ رات طلوع صبح تک سلامتی والی رات ہے۔ مفسرین کی یہ رائے ہے کہ یہ رات رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں یعنی 29, 27, 25, 23, 21 میں سے کسی ایک میں ہے غالب گمان 27 ویں شب کا ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ ایک رمضان المبارک میں اگر 27 ویں شب ہے تو اگلے رمضان المبارک میں یہ کسی اور طاق رات میں بھی آسکتی ہے۔ البتہ رمضان المبارک اور اخیر عشرہ میں ہونے کا رجحان زیادہ ہے۔ علمائے کرام نے شب قدر کے پوشیدہ ہونے کی بعض حکمتیں بیان فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں۔1 اگر شب قدر کو ظاہر کردیا جاتا تو کوتاہ ہمت لوگ اسی رات کی عبادت پر اکتفا کرلیتے اور دیگر راتوں میں عبادات کا اہتمام نہ کرتے۔2 شب قدر ظاہر کردینے کی صورت میں اگر کسی سے یہ شب چھوٹ جاتی تو اسے بہت زیادہ حزن و ملال ہوتا اور دیگر راتوں میں وہ دلجمعی سے عبادت نہ کرپاتا۔ اب رمضان کی پانچ طاق راتوں میں سے دو تین راتیں اکثر لوگوں کو نصیب ہو ہی جاتی ہیں۔3 اگر شب قدر کو ظاہر کردیا جاتا تو جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ ہے، اسی طرح اس رات میں گناہ بھی ہزار درجہ زیادہ ہوتا۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ اس شب میں عبادت کریں وہ ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ اجروثواب پائیں اور اپنی جہالت وہ کم نصیبی سے اس شب میں بھی گناہ سے باز نہ آئیں تو انہیں شب قدر کی توہین کرنے کا گناہ نہ ہو۔4جیسا کہ نزول ملائکہ کی حکمتوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کی عظمت بتانے کے لئے زمین پر نازل فرماتا ہے اور اپنے عبادت گزار بندوں پر فخر کرتا ہے۔ شب قدر ظاہر نہ کرنے کی صورت میں فکر کرنے کا زیادہ موقع ہے کہ اے ملائکہ دیکھو! میرے بندے معلوم نہ ہونے کے باوجود محض احتمال کی بناء پر عبادت و اطاعت میں اتنی محنت و سعی کررہے ہیں۔ اگر انہیں بتادیا جاتا کہ یہی شب قدر ہے تو ان کی عبادت و نیازمندی کا کیا حال ہوتا۔ اسی طرح آخری عشرے کی ہر طاق رات میں ہر شخص کو یہی سوچ کر عبادت کرنی چاہئے کہ شاید یہی شب قدر ہو۔ اسی طرح شب قدر کی جستجو میں برکت والی پانچ راتیں عبادت الٰہی میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوجائے گی۔
امام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے جب پہلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ کو اپنی اُمّت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں۔ آپﷺ نے یہ خیال فرمایا کہ جب گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو شب قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔مفسرین فرماتے ہیں کہ اس رات اللہ کے حکم سے روح القدس (جبرئیل امین) بیشمار فرشتوں کے ساتھ نیچے اترتے ہیں تاکہ عظیم و الشان خیرو برکت سے زمین والوں کو مستفید کیا جائے۔بہر حال اس مبارک شب میں باطنی حیات اور روحانی خیرو برکت کا خاص نزول ہوتاہے۔ آیت مبارکہ میں لفظ ”من کل امر“ سے مراد ہر کام کے انجام دینے کے لئے اس رات کو جو فرشتے نازل ہوتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کے ذریعے اپنے بندوں کواس رات چین و امن اور دلجمعی عطا فرماتے ہیں۔ یہ سکون اور اطمینان صرف وہ زاہد و عابد ہی محسوس کر سکتے ہیں جو اس رات کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔حضرت عبادہ بن سامتؓ سے روایت ہے کہ یہ رات چمکدار اور صاف ہوتی ہے نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے بلکہ بھینی بھینی اور معتدل ہوتی ہے۔اس رات کو شیاطین کو ستارے نہیں مارے جاتے۔آسمانوں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے سے آنکھوں میں نور اور دل میں سرور کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔شب قدر کی بعد والی صبح کو سورج میں تیزی نہیں ہوتی۔اس رات میں عبادت کی بڑی لذت محسوس ہوتی ہے اور عبادت میں خشوع و خضوع پیدا ہو تا ہے۔بعض لوگوں نے دیکھا کہ ہر چیز سجدہ کرتی ہے یہاں تک کہ درخت بھی سجدہ کر تے ہیں اوراس رات پانی میٹھا ہو جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ کھڑے ہونے کا مطلب: نماز پڑھنا، تلاوتِ قرآن اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہونا ہے۔یہ رات دعاء کی قبولیت کی رات ہے اپنے لئے،دوست و احباب کے لئے،اوروالدین کے لئے،تمام گزرے ہوئے لوگوں کے لئے دعا ء مغفرت کرنی چاہئے،اور دعاؤں میں سب سے بہتر وہ دعا ہے جو حضرت عائشہؓ سے منقول ہے:ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے بتائیں کہ میں لیلتہ القدر کو کیا دعا مانگوں آپ نے ارشاد فرمایا، یہ دعا پڑھا کرو ”أَ للّٰھُمَّ إِ نَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ ا لْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ“ ترجمہ اے اللہ تو معاف کر دینے والا اور معافی کو پسند کرنے والا ہے پس مجھے بھی معاف کر دے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 7 جون 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں