Bakhtawar Bhutto Zardari

بختاور بھٹو اور بیگم عابدہ حسین کے مابین قانونی جنگ

عام طور دیکھا گیا ہے کہ دنیا بھر کے سیاستدان اپنی سیاسی کیریئر کے اختتام پر اپنی خود نوشت یعنی یادداشتوں پر مشتمل کتابیں ضرور لکھتے ہیں جن کا مقصدوحید اُن کے بعد ملک و قوم کی قیادت و خدمت کا اہم ترین فریضہ انجام دینے والے نوآموز سیاستدانوں کی رہنمائی و تربیت کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں سیاستدان اپنے سیاسی کیرئیر کے اختتام پر اپنی خود نوشت لکھنے کے بجائے اپنے سیاسی کیرئیر کے عروج پر یا پھر ابتداء میں ہی کتابی سرگزشت لکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔جس سے اُن کا مطمع نظر کسی کی رہنمائی یا رہبری نہیں بلکہ نت نئے انوکھے انکشافات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اپنی ”سیاسی ویلیو“ میں اضافہ کرنا اورسستی شہرت کے ساتھ پیسہ کمانا بھی ہو سکتاہے۔جس کے حصول کے لیئے اُن میں اکثر وبیشتر اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ اُن کے انکشافات اپنے پڑھنے والوں پر کیا کیا قیامت ڈھائیں گے ایسی ہی عجیب و غریب صورتحال کا سامنا حالیہ دنوں امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر اور معروف سیاستدان سیدہ عابدہ حسین کو اپنی کتاب ”اسپیشل اسٹار“کی وجہ سے درپیش ہے، جو انہوں نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ اپنے گزرے ہوئے یادگار لمحات سے دنیا بھر کو متعارف کروانے کے لیئے لکھی ہے۔ لیکن ابھی اس کتاب کی تقریب رونمائی منعقد بھی نہ ہوپائی تھی کہ بے نظیر بھٹو شہید کی صاحبزادی بختاور بھٹو نے سیدہ عابدہ حسین کو ان کی کتاب پر ایک ارب روپے کا قانونی نوٹس بھجوا یا دیا۔ جس کے بعد کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ہونے والی اس کتاب کی عظیم الشان رونمائی ملتوی کر دی گئی ہے۔ عابدہ حسین کو بھجوانے جانے والے قانونی نوٹس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ کتاب اِس جھوٹے دعوے سے شروع کی گئی ہے کہ اس کی مصنفہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی دوست تھیں جو کہ قطعی غلط اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ جس کا زمینی حقائق سے دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں اور سیدہ عابدہ حسین نے یہ کتاب لکھنے کا انتخاب ایسے وقت کیا ہے، جب بے نظیر بھٹو شہید اس دُنیا میں موجود نہیں ہیں اور وہ ان کے جھوٹے،متضاد و متنازعہ ترین دعووں کا جواب نہیں دے سکتیں۔یہ کتاب بینظیر شہید کی موت کے دس سال بعد لکھی اور شائع کی جارہی ہے جس میں وہ اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتیں جو محترمہ اور ان کے پیروکاروں کی بے عزتی اور توہین کے مترادف ہے۔ سیدہ عابدہ حسین کا بے نظیر بھٹو سے دوستی کا دعویٰ محض سستی شہرت حاصل کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے اور ان کی کتاب بیمار ذہنیت اور ایک مردہ روح کی عکاس ہے۔ یہ کتاب بغیر کسی تحقیق کے لکھی گئی ہے جو سراسر شہید محترمہ بینظیر بھٹو، ان کے خاندان اور اُن کی سیاسی میراث کے خلاف ہے۔ کتاب لکھتے وقت بے نظیر شہید کے قرابت داروں یا اُن سے متعلق کسی بھی فرد سے کسی بھی قسم کی تصدیق نہیں کی گئی اور نہ ہی اصل حقائق جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ عابدہ حسین اور دیگر کو یہ نوٹسز اس کتاب میں جھوٹے، غیرمصدقہ اور ذاتی عناد کی بنیاد پر لگائے گئے الزامات پر بھیجے گئے ہیں کیونکہ ان سب لوگوں نے غیرذمہ دارانہ اور بدنیتی پر مبنی کتاب لکھی اور شائع کی ہے جس میں یہ کوشش کی گئی کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو، ان کی پارٹی اور سیاست پر کیچڑ اچھالا جائے۔جبکہ اس کتاب کے پرنٹر اور پبلشرنے بھی اس بات کا قطعی خیال نہیں رکھا کہ وہ اسے مارکیٹ میں لانے سے پہلے کتاب میں دئیے گئے مواد کی تحقیق کر لیتے۔

بختاور بھٹو کی جانب سے یہ قانونی نوٹس ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سیدہ عابدہ حسین کے ساتھ ساتھ معروف پبلشنگ ادارے ”آکسفورڈ یونیورسٹی پریس“ کی منیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید، ریجنل سیلز ڈائریکٹر سلمیٰ عادل اور کراچی لیٹریری فیسٹیول کے بانی اور ڈائریکٹرز کو بھی بھیجے گئے ہیں۔نوٹس میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کتاب کی پبلشر اور پرنٹر کراچی لیٹریری فیسٹیول کی ڈائریکٹر ہیں اوراس کتاب کی رونمائی 9 فروری 2018ء کو شروع ہونے وا لے کراچی لیٹریری فیسٹیول میں کرنا چاہتی ہیں۔ انہیں خاص طور پر متنبہ کیا جاتا ہے کہ اس کتاب کی رونمائی سے ہر صورت بازرہیں، اگر کراچی لیٹریری فیسٹیول اس کتاب کی فروخت یا رونمائی کرتا ہے تو وہ بھی اس کتاب کی مصنفہ اور پبلشر کے ساتھ گٹھ جوڑ کا مرتکب سمجھے جائیں گے جو کہ قانون کے تحت قابل سزا جرم ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے بختاور بھٹو کے قانونی نوٹس ملنے کے بعد نہ صرف کراچی لٹریچر فیسٹیول میں سیدہ عابدہ حسین کی کتاب کی رونمائی ملتوی کر دی ہے بلکہ اپنی ویب سائٹ سے مذکورہ کتاب کے حوالے سے موجود تشہیری مواد بھی ہٹا دیا ہے۔جبکہ اس بارے میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی منیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید کا کہنا ہے کہ”انھوں نے تقریبِ رونمائی روک دی ہے اور ساتھ ہی پروگرام کے نئے شیڈول میں ترمیم کرتے ہوئے عابدہ حسین کا نام میلے میں شامل مصنفوں کی فہرست سے بھی ہٹا دیا ہے۔اس وقت ہم نے انفرادی طور پر ماہرین سے بھی رجوع کیا ہے جو اس کتاب کو بھی پڑھیں گے اور آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے کیونکہ ہم اس طرح کی غلطی کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں“۔
یہاں ایک بات اور بھی انتہائی معنی خیز ہے کہ یہ سیدہ عابدہ حسین کی کو کوئی پہلی خود نوشت نہیں ہے اس پہلے بھی سیدہ عابدہ حسین کی انگریزی میں لکھی گئی سیاسی یادداشتوں پر مشتمل خود نوشت ”پاور فیلئیر“ (Powr Failure)کے عنوان سے آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے 2015 میں شائع ہوچکی ہے۔ جس کا اُردو ترجمہ ”اور بجلی کٹ گئی“ کے نام سے کیا گیا۔ عموماً خود نوشت ایک بار ہی لکھی جاتی ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں ذاتی زندگی کے انکشافات بھی وقفہ وقفہ سے”مناسب وقت“اور ”خاص حالات“ دیکھ ہی کیئے جاتے ہیں شاید اسی وجہ سے بیگم سیدہ عابدہ حسین نے اپنی یادداشتوں کی پہلی کتاب میں بے نظیر شہید سے وابستہ اہم ترین یادوں کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔ بہرحال تجزیہ کاروں کا ایک بات پر ضرور اتفاق ہے کہ بیگم سیدہ عابدہ حسین کو کتاب لکھنے سے پہلے بے نظیر بھٹو شہید کے اہلِ خانہ خاص طور پر اُن کے بچوں کو اپنی کتاب میں شامل مواد کے حوالے سے اعتماد میں ضرور لینا چاہئے تھا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 22 فروری 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں