Kashmir Issue

بھارت کے تابوت میں آخری کیل کشمیر

اگر کشمیر فقط کاغذ کے ایک نقشہ پر ہوتا تو باآسانی تسلیم کرلیا جاتا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے آرٹیکل 370 اور 35A ختم کیے جانے کے بعد کشمیر بھارت کا اٹوٹ بن سکتا ہے۔مگر یہاں بات بھارتی لوک سبھا میں پاس ہونے والی نام نہاد کاغذی قرارداوں یا ریڈکلف کی طرف سے متنازعہ نقشہ پر کھینچی گئی آڑھی ترچھی سرحدی لکیروں کی نہیں ہورہی ہے بلکہ کشمیر میں بسنے والے اُن لاکھوں مظلوم کشمیریوں کی ہورہی ہے۔جو چہرے پر دو آنکھیں رکھتے ہیں، جس میں بھارت کے لیئے شدید نفرت ہے۔سننے والے دو کان رکھتے ہیں،جن میں آزادیئ کشمیر کے نعرے گونجتے ہیں اور اپنے سینہ میں جیتا جاگتا ہوا ایسا دل رکھتے ہیں جو پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ دھڑکتا ہے۔قابلِ غور بات یہ ہے کہ کشمیر کسی چھوٹے بڑے،آباد یا غیر آباد قطعہ ئ ارضی کا نام نہیں ہے بلکہ کشمیر،اُن کشمیریوں کا نام ہے، جو وادی ئ کشمیر میں بستے ہیں اور بھارت کے قبضہ استبداد میں ر ہ کر بھی کسی صورت بھارت کے نہیں ہوسکتے۔یہ بات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی اچھی طرح سے جانتا ہے اور بھارت میں بسنے والے چانکیہ کے چیلے بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔

یاد رہے کہ بھارت نے اپنے آئین کے جس آرٹیکل 370 اور 35Aکو ختم کیا ہے،اُسے پاکستان نے تسلیم ہی کب کیا تھا۔ریاست ِ پاکستان کا تو ہمیشہ سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ چند نام نہاد آئینی شقوں کا سہارا لے بھارت کشمیر پر اپنا جو حق جتا تا آیا ہے، وہ ہی تو دراصل جارحیت ہے۔خدا کا شکر ہے کہ نریندر مودی نے اِن آئینی شقوں کو ختم کرکے کشمیر کے ساتھ بھارت کے تعلق کا وہ آخری سہارا بھی خود ہی ختم کردیا،جس کے بل بوتے پر وہ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے کوتاہ عقل کشمیر یوں کو برسوں سے بے وقوف بناتا آرہا تھا۔چند آئینی شقوں کے خاتمہ نے جہاں دنیا کے سب سے بڑے دوغلے جمہوری سیکو لر ملک کے چہرے پر کالک ملی ہے،وہیں فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے لبرل اور نام نہادجمہوری رہنماؤں کی بھی آنکھیں کھول کر رکھ دی ہیں اور اَب انہیں بھی غاصب بھارتیوں کا اصل چہرہ نظر صاف صاف آنا شروع ہوگیا ہے اور وہ بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ گزشتہ 70 برسوں سے حریت پسند کشمیریوں کے ساتھ بھار ت جو کچھ اُن سے کرواتا آیا ہے وہ سراسر کشمیر یوں کے خون کے ساتھ غداری تھی۔



سچ بھی یہ ہی ہے کہ تکلیف کی شدت کا حقیقی احساس تو اُسی وقت ہوتا ہے جب اپنا خون بہتا ہے۔آج جب کہ فاروق عبداللہ کے صاحبزادہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھارتی فوجیوں کی حراست میں ہیں تو اِن کے پیچھے گرفتاری سے بچ رہ جانے والی اِن کی آل اولاد سوشل میڈیا پر آڈیو،ویڈیو پیغام نشر کررہی ہے کہ”اُنہیں بھارتی افواج کے ظلم و ستم سے نجات دلائی جائے“۔کل تک اِسی طرح کے پیغامات حریت پسند رہنما بھی بھیجا کرتے تھے مگر یہ ہی کٹھ پتلی کشمیری حکمران اُس وقت اِن پیغامات کی اعلیٰ سطح پر تردید کردیا کرتے ہوئے یہ مختصر سا بیان جاری کردیا کرتے تھے کہ ”کشمیر میں حالات بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں“۔ حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ آج آزادی ئ کشمیر کی تحریک کو اپنے خون سے زندہ جاوید رکھنے والے حریت کانفرنس کے رہنما اور بھارتی ساز باز سے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے بھارت نواز کٹھ پتلی حکمران ایک ہی صف میں بے یارو مددگار کھڑے ہوئے ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق،یاسین ملک اور سید علی گیلانی جیسے حریت پسندوں کے لیئے تو بھارتی ظلم و ستم کی یہ اندھیری رات نئی نہیں ہے۔البتہ! عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھارتی شکنجہ میں پہلی بار کسے گئے ہیں۔ دو قومی نظریہ کے مخالفوں کو آج ستر سال بعد ایک بار پھر سے قائداعظم اور تحریک پاکستان کی یاد شدت سے آرہی ہے۔مگر وہ کہتے ہیں نا! کہ اَب پچھتائے کیا ہوت،جب چڑیاں چُگ گئی کھیت۔ویسے بھی کشمیر میں تو بھارت نے فاروق عبداللہ اور اور محبوبہ مفتی کے ساتھ مل کر زندہ اور مردہ لاشوں کی فصل اُگائی تھی اور اَب یہ فصل کٹنے کو پوری طرح سے تیار ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنے آئین کی دو شقیں ختم کرنے سے کشمیر میں کیا کچھ حاصل ہوا،اُس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس کشمیر میں پانچ لاکھ بھارتی فوج پہلے ہی سے موجود تھی۔اَب وہاں مزید ایک لاکھ فوج بھیجی جارہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ کشمیر میں یہ فوج بھی کم پڑ جائے اور مودی سرکار کو اپنی افواج کی زندگیاں بچانے کے لیئے آنے والے دنوں میں کئی لاکھ فوج مزید کشمیر میں اُتارنی پڑجائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر بھارت اپنی ساری فوج بھی کشمیر میں اُتار دے تو کیا اِس طرح سے کشمیر اور کشمیری بھار ت کے ہوجائیں؟۔ اِس کابس ایک ہی جواب ہے کہ اگر سارا کا سارا ہندوستان بھی کشمیر میں اُتار دیا جائے، تو بھی کشمیر اور بھارت ایک دوسرے سے اُتنے ہی دُور رہیں گے جتنا دُور ایک دوسرے سے کشمیری اور بھارتی 1947 میں تھے۔ کیونکہ کشمیریوں اور بھارتیوں کو ایک دوسرے الگ زمین پر کھینچی گئی سرحدیں نہیں کرتیں بلکہ دو قومی نظریہ کرتا ہے۔ شاید اَب اُسی پرانے دو قومی نظریہ کا طبلِ جنگ ایک بار پھر سے سارے ہندوستان میں بجنے ہی والا ہے اور کشمیر میں بھارتی افواج کے ظلم و ستم کا یوم حساب قریب آگیا ہے۔جب ہی تو پوری بھارتی فوج آہستہ آہستہ کشمیر میں ہانک کر لائی جارہی ہے۔یعنی اَب کشمیری اپنے قاتلوں کا شکار خود کریں گے اور وادی ئ کشمیربھارتی افواج کے لیئے شمشان گھاٹ بننے جارہی ہے۔خاطر جمع رکھیئے کہ بھارت جس کا تابوت 1947 میں تحریک پاکستان کے رہنماؤں نے بنایا تھا،اَ ب اُسی تابوت کی آخری کیل ”کشمیر“ ثابت ہوگااور پاکستانی افواج نے تو بس اِس کیل کو بھارت کے تابوت میں ٹھونکنا ہی تو ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 15 اگست 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

بھارت کے تابوت میں آخری کیل کشمیر” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں