Pakistani Peoples

سب کو غصہ عوام پر ہے

نامور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین سائنسی اعدادو شمار اور رپورٹس کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کا مزاج بُری طرح سے بگڑ چکا ہے اور اَب آگے آنے والے”وبائی ایّام“ پاکستانی عوام کے لیئے انتہائی سخت ہوں گے۔عالمی اداروں کے بیان کردہ اِن ہی چشم کُشا حقائق کے تناظر میں ہمارے حکمران پاکستانی عوام پر سخت غصہ ہیں کہ انہوں نے عوام کو کورونا وائرس سے بچانے کے لیئے ماہِ فروری سے لے کر اَب تک اپنی دانست میں کیا کیا انتظامی بندوبست نہیں کیئے۔ مثلاً سخت لاک ڈاؤن، نرم لاک ڈاؤن،اسمارٹ لاک ڈاؤن،سلیکٹڈ لاک ڈاؤن،فینسی لاک ڈاؤن حد تو یہ ہے کہ ایک صوبے نے تو اپنی عوام کی محبت اور وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے سیاسی پرخاش میں ”کیئر فار یو“نامی لاک ڈاؤن کر کے بھی دیکھ لیا لیکن عوام کی مجرمانہ غیر سنجیدگی کی وجہ سے، اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں۔۔۔ اور کورونا وائرس کا پھیلاؤ پاکستان میں کم ہونے کے بجائے روز افزوں بڑھتا ہی جارہاہے۔ لہٰذا حکمرانوں کی جانب سے اِس مخدوش صورت حال کی ساری ذمہ دار ی صرف اور صرف عوام پر ہی عائد کی جارہ ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے عقل مند حکمرانوں کے جاری کردہ احکامات کی نہ تو پاسداری کرتی ہے اور نہ ہی بار بار جاری ہونے والے حکومتی انتباہوں کو کان کھول کر سنتی ہے۔پس!اگر کورونا وائرس بگڑ گیا ہے تو اُسے بگاڑنے کی تمام تر ذمہ داری براہ راست پاکستانی عوام پر عائد ہوتی ہے نہ کہ حکومتِ وقت پر۔یہ ہی وجہ گزشتہ کچھ دنوں سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں متفقہ طور پر اور تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مکمل یکسوئی کے ساتھ پاکستانی عوام پر سخت غصہ ہیں۔

پاکستانی عوام پر غصہ تو ڈاکٹروں اور اُن کی جملہ تنظیمات کو بھی بہت ہے۔ ڈاکٹروں کو شکوہ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف صف اوّل کے سپاہی ہونے کی حیثیت سے وہ کون سی ایسی مسیحانہ نصیحت یا کاوش ہے جو انہوں نے پاکستانی عوام کو کوروناوائرس کے مہلک اثرات سے بچانے کے لیئے نہیں فرمائی۔ مگر مجال ہے جو پاکستانی عوام نے اپنے مسیحاؤں کی ایک بھی نسخہ جاتی قسم کی ہدایت پر عمل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہو۔حفظ ما تقدم کے طور پر ڈاکٹروں نے تو فروری میں ہی آگاہ کردیا تھا کہ 15 مارچ کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پیک ٹائم ہوگا، جب یہ طبی پیشن گوئی درست ثابت نہ ہوسکی تو ڈاکٹروں نے فوراً ہی رجوع کرلیا اور15 اپریل کی نئی تاریخ دے ڈالی اور جب کورونا وائرس اِس مقررہ مدت تک بھی پیک پر نہ پہنچ سکا تو ڈاکٹروں نے 15 مئی،15جون، 15 جولائی اور 15 اگست کی ایک مکسچر نما تاریخ دے ڈالی ہے۔یقینا تاریخ کے اِس اینٹی کوروناٹک قسم کے مکسچر میں پائی جانے والی کسی نہ کسی تاریخ تک تو کورونا وائرس ضرور پاکستان میں اپنے پیک پر آہی جائے گا۔مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی سانس ابھی تک 15 اپریل کی ہی تاریخ پر اٹکی ہوئی ہے اور ڈاکٹروں سے کورونا وائرس کے مہنگے سستے تشخیصی ٹیسٹ اورعلاج معالجہ تو کروارہی ہے لیکن کورونا وائرس کے متعلق ڈاکٹر جوکچھ بھی ”سائنسی ارشادات عالیہ“ فرمارہے ہیں اُس پر ایمان لانے کے بجائے اُلٹا اُن کی مسیحانہ تدبیروں و نصیحتوں کا ہنسی مذاق اُڑا رہی ہے۔ اِس لیئے وطن و عزیز کے کم و بیش تمام ڈاکٹرز بھی پاکستانی عوام پر سخت غصہ ہیں۔



ویسے آج کل غصہ تو پاکستانی عوام پر میڈیا کے دانشوروں کو بھی خوب آیاہوا ہے۔ نیوز چینل کے اینکر عوام پر اِس لیئے غصہ ہیں کہ پانچ ماہ سے وہ مسلسل کورونا وائرس کے حدود واربعہ،اُس کی خطرناک علامتیں اور کورونا سے احتیاط اور علاج کے لیئے جادوئی تدبیریں،ٹونے،ٹوٹکے سب کچھ ہی تو مع جزوی تفصیلات کے سمجھارہے ہیں لیکن عوام ہے کہ ہرفن مولا اینکروں کی تجزیاتی و مطالعاتی گفتگو سے ایک اچھے بچے کی طرح ”ایجوکیٹ“ ہونے کے بجائے کسی ہونق کی طرح ”انٹرٹین“ یعنی حظ اُٹھارہی ہے۔جبکہ ملک کے ممتاز کالم نگار پاکستانی عوام پر اِس لیئے غصہ ہیں کہ کورونا وائرس کے متعلق وہ جتنی سچی مچی کہانیاں،آپ بیتیاں،سب رنگ داستانیں اور افسانے اپنے عالمانہ کالموں میں رقم کرسکتے تھے،پورے انہماق کے ساتھ رقم کرچکے ہیں لیکن پاکستانی عوام کالم نگاروں کے خونِ قلم سے سینچے گئے کورونا وائرس سے متعلق خصوصی کالموں کو شوق سے پڑھنے کے بجائے ارطغرل غازی کے ڈرامہ کو مکمل ذوق سے دیکھنے میں دن رات مصروف ہے۔یعنی عوام کے نزدیک کورونا وائرس سے متعلق کالم نگار کی لکھی گئی آپ بیتی پر یقین کرنا مشکل اور ارطغرل غازی کی معرکہ الآراء بہادری کی ستائش کرنا لازم ٹہرا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بعض کالم نگار تو پاکستانی عوام پر اتنا شدید غصہ ہیں کہ وہ اپنے کالموں میں بین السطور عوام کے لیئے بے نطق صلواتیں تک لکھ رہے ہیں۔

حیران کُن بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام سب سے خوش ہے۔ اُن سے بھی خوش ہے جنہوں نے کیئر فار یو نامی لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی پاداش میں اُنہیں سڑکوں پر مرغا بنایا،اُن کی گاڑیوں کے ٹائروں سے ہوا نکالی اور اُنہیں ہتھکڑیاں لگا کر حوالہ زنداں کردیا۔ پاکستانی عوام اُن پولیس والوں سے بھی خوش ہے جو تھوڑی دیر تک دُکان کھلی رکھنے کے لیئے تھوڑی سی رشوت لیتے ہیں۔پاکستانی عوام اُن نجی ہسپتالوں کے مسیحاؤں سے بھی بہت خوش ہے جو کورونا وائرس کے نام پر 60 ہزار والا ٹیکہ 11 لاکھ میں لگارہے ہیں اور فقط چار دن آئی سی یو میں رکھنے پر 17 لاکھ روپے کا بل اُس کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں۔لطیفہ ملاحظہ ہوکہ پاکستانی عوام تو کورونا وائرس سے بھی خوش ہے لیکن اِس کے باوجود بھی سب پاکستانی عوام پر غصہ ہیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 18 جون 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں