Imran Khan with Hassan Rohani

ایران اور پاکستان ۔۔۔ بن سکیں گے اِک دوسرے کا سائبان؟

ایران اور پاکستان کے باہمی تعلقات کا ابتدائی دور کئی حوالوں سے بے مثال رہا ہے۔ ایران ہی وہ پہلا ملک تھا کہ جس نے دنیا کے نقشے میں ابھرنے والی نئی نویلی مسلم ریاست پاکستان کو بہ حیثیت ایک آزاد ملک کے نہ صرف فورا ًہی تسلیم کرلیا تھا بلکہ مختلف حوالوں سے پاکستان کے ساتھ دستِ تعاون بڑھاتے ہوئے عالمی فورمز میں دامے، ورمے،سخنے اس کی کھل کر مدد بھی کی تھی۔ایران کے بادشاہ وہ پہلے غیر ملکی سربراہ مملکت تھے کہ جنہوں نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا اور اِسی دورے کے موقع پر پاکستان کی پارلیمنٹ کی طرف سے ایران سے اُس وقت کے ایرانی آئین کی کاپی دینے کی درخواست بھی کی گئی تھی تاکہ پاکستان کا نیا آئین مرتب کرتے وقت اس سے استفادہ حاصل کیا جاسکے۔اس کے علاوہ چھ فروری 1958میں دونوں ہمسایہ ممالک نے انتہائی خاموشی اور دوستانہ انداز سے اپنی اپنی سرحدی حدود کا خوش اسلوبی سے تعین بھی کرلیا تھا۔ جس پر آج تک دونوں ممالک پوری طرح متفق ہیں۔جبکہ بھارت کے ساتھ رن آف کچھ کے سرحدی علاقہ کے تنازعہ کے پرُامن حل کے لیئے اقوام متحدہ کے تحت جنیوا میں منعقد ہونے والی پاک بھارت ثالثی اجلاس میں بھی پاکستان نے اپنی نمائندگی کے لئے ایرانی سفارتکار نصراللہ انتظام کو منتخب کیا تھا، وہاں بھارت کی نمائندگی یوگوسلاویہ نے کی، جبکہ ثالثی فورم کا سربراہ سوئیڈن سے تعلق رکھتا تھا۔ ایرانی سفارتکار نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کا مقدمہ بڑی جانفشانی سے لڑا،اور یوں یہ تنازعہ پاکستان کی خواہش کے عین مطابق حل ہوا۔اس کے علاوہ 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران ایران نے پاکستان کی سیاسی، اخلاقی، عسکری اور مالی مددکے علاوہ پاکستانی طیاروں کو محفوظ بنانے کے لئے اپنے فضائی اڈے بھی فراہم کئے تاکہ بھارتی فضائی حملوں سے اپنے جنگی طیاروں کو بچا کر بھارتی فضائیہ کو حیران و پریشان کیا جاسکے۔ایران نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بنگلہ دیش کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جب تک پاکستان نے خود اسے تسلیم کرنے کا فیصلہ نہ کرلیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے برادرانہ تعلقات بڑھتے بڑھتے اعتماد کے اُس اُفق تک پہنچ گئے تھے کہ ایک بار شاہ ایران نے پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے،یہ تک کہہ دیا تھا کہ ”کیوں نا! پاکستان اور ایران کی کنفیڈریشن بنائی لی جائے جس کی ایک ہی فوج ہو“۔
بدقسمتی کی بات یہ کہ حال کا ایران،ماضی کے بیان کردہ ایران سے یکسر مختلف ہے۔ آج کل ایران اور پاکستان کے ریاستی تعلقات میں وہ گرم جوشی عنقا ہے،جس کا تذکرہ تاریخ کے اوراق میں پڑھنے کو ملتاہے۔ وجہ اِس کی کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کا ازلی دشمن ملک بھارت ہے۔گزشتہ دو دہائیوں سے بھارتیوں اور ایرانیوں کی مابین بڑھنے والی”پراسرار قربت“ نے اسلام آباد اور تہران کے تعلقات کی کشیدگی اُس انتہا درجہ پر پہنچادی ہے کہ اَب پاک،ایران دوستی کی باتیں خواب و خیال یا پھر بھولی بسری سی کہانیاں لگتی ہیں۔یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا کہ وہ برادر اسلامی ملک ایران جو کبھی پاکستان کا سائبان ہوا کرتا تھا،اَب پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے والوں کی واحد ”جائے اَمان“ بن چکا ہے۔مگر کیا کریں ناقابلِ تردید حقائق چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ بھارت نے ایرانی سرزمین کو بھرپور انداز میں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیئے اپنی خفیہ ایجنسی را کے نیٹ ورک کا ایک پورا جال پاک،ایران سرحدی علاقوں پر بچھایا ہوا ہے۔جہاں سے بھارت ایک مدت سے بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی دہشت گرد کاررائیوں کومانیٹر کرتا آرہاہے۔اِس تلخ حقیقت کی تصدیق بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری کے بعد ہوئی۔ جبکہ کلبھوشن یادو کے پاس سے ایرانی پاسپورٹ کا برآمد ہونا ثابت کرتا ہے کہ وہ اپناپورا نیٹ ورک ایران میں بیٹھ کر ہی چلا یا کرتاتھا۔اس کے علاوہ پیپلز امن کمیٹی کے رہنما عزیر بلوچ کی ملک دشمن سرگرمیوں کے پیچھے بھی ایران ہی کے ملوث ہونے کے کافی سے زیادہ ثبوت پائے گئے ہیں۔ پاکستان میں ایرانی مداخلت کے اتنے ڈھیر سارے ناقابلِ تردید شواہد ہونے کے باوجود بھی اسلام آباد نے سرکاری سطح پر کبھی ایران کا نام علی الاعلان لے کر اُسے اپنے ملک میں دہشت گردی کامرتکب قرار نہیں دیا۔کیونکہ پاکستان کی ہمیشہ سے شدید ترین خواہش رہی ہے کہ کسی طرح ایران اور پاکستان کے درمیان بے مثال ریاستی تعلقات کا سنہرادور پھر سے واپس آجائے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کا حالیہ دورہئ ایران پاکستان کی اِسی دیرینہ خواہش اور خواب کو عملی تعبیر دینے کی ایک بھرپور کوشش کے سوا کچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔ عمران خان کا دورہ ئ ایران،صدرحسن روحانی کی اُس دعوت پر ہوا ہے جو انہوں نے عمران خان کو پاکستان کا وزیراعظم بننے کے فوراًبعد دی تھی۔ میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورہ ایران میں تہران اور اسلام آباد کے مابین غیر معمولی عہد و پیمان ہوئے ہیں۔جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلی بار اِس بات پر بھی مکمل اتفاق پایا گیاہے کہ دہشت گردی ایک ایسا مہلک ہتھیار جسے ایک تیسرا اجنبی ملک پاکستان اور ایران کو کمزور کرنے کے لیئے مسلسل استعمال کررہا ہے۔ جس کے سدباب کے لیئے دونوں ملکوں کی طرف سے مشترکہ بارڈر سیکورٹی فورس کے قیام کا اعلان کیاگیاہے۔اِس اعلان کو دفاعی ماہرین پاکستان کی ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں کیونکہ پاک،ایران سرحدی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے سے پاکستان کو سی پیک راہداری کو محفوظ بنانے میں کافی مدد حاصل ہوگی۔اس کے علاوہ عمران خان نے ایرانی قیادت کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان اُس وقت تک ایران کی طرف سے دہشت گردی کے خطرات محسوس کرتا رہے گا جب تک ایرانی سرزمین پربھارتی خفیہ ایجنسی را کا منظم نیٹ ورک آزادانہ کام کر رہاہے۔لہٰذا بھارتی خفیہ ایجنسی را کے خلاف یا تو وہ خود کارروائی کرے یا پھر پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اُن کا قلع قمع کرنے اجازت دے۔اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اِس شکایت کو بھی رفع کرنے کا پوری طرح سے یقین دلایا گیا ہے۔ جبکہ ایرانی صدر حسن روحانی کی طرف سے عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ کہنا کہ ”کوئی تیسرا ملک ایران اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات کو نقصان نہیں پہنچا سکتا“۔ مودی سرکار کے لیئے صاف پیغام ہے کہ اُس کا بوریا بستر ایران سے گول ہوا ہی چاہتا ہے اوریوں بہت جلد اِس خطے میں بھارت کی پیشانی پر داغ ِ یتیمی ثبت ہونے جارہاہے۔مجھے نا جانے کیوں خوش اُمیدی سی ہے کہ اگر ایران کی طرف سے کئے گئے یہ سب وعدے من و عن پورے ہوجاتے ہیں تو یقین کیجئے وہ وقت دورنہیں جب ایک بار پھر سے ایران اور پاکستان ایک دوسرے کا سائبان بن جائے گے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور کے شمارہ 02 مئی 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

ایران اور پاکستان ۔۔۔ بن سکیں گے اِک دوسرے کا سائبان؟” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں