2021-year-in-review-incredible-science-stories

اختراعات اورایجادات کا سال 2021

2021 میں دنیا کے 14000 سائنس دانوں نے ایک عرض داشت کی صورت میں لکھ کر بھی دے دیا تھا کہ ہمارا کرہ ارض انسان کی بد اعتدالیوں کے باعث نزاعی حالت تک پہنچ چکا ہے لیکن بدقسمتی سے کسی عالمی رہنمانے اُن کی تنبیہی درخواست پر توجہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ خان منظور نے بہ زبانِ شعرشاید ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ”انسان کی تباہی کے لیئے کیا کریں تخلیق۔۔۔دنیائے ترقی کے خدا سوچ رہے ہیں“۔دوسری جانب مائیکروسافٹ کارپوریشن نے ایک ایسے الگورتھم کے جملہ حقوق پیٹنٹ کرانے کی درخواست دائر کردی جو کسی بھی چیٹ بوٹ کو زندہ یا مُردہ انسانوں کے انداز میں تحریری تبادلہ خیال کرنے کے قابل بنادے گااور یوں مائیکروسافٹ کا یہ نیا الگورتھم استعمال کرنے والا چیٹ بوٹ کسی شخص کی سوشل میڈیا پوسٹس، تبصروں، تحریروں، ویڈیوز یا دیگر مواد استعمال کرتے ہوئے اس کی ہوبہو نقل کرتے ہوئے دوسروں سے چیٹنگ کیا کرے گا۔یعنی یہ چیٹ بوٹ مشہور شخصیات کی جگہ لے کر ان کے ہزاروں مداحوں سے دن،رات تحریری گفتگو کرتا رہے گا اور انہیں احساس تک بھی نہ ہو سکے گا کہ وہ مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والے ایک سافٹ ویئر سے بات چیت کررہے ہیں۔بقول فیض خلیل آبادی”جو فن سے فکر کی تدبیر گفتگو کرے گی۔۔۔تو گونگی،بہری بھی تصویر گفتگو کرے گی“۔علاوہ ازیں 2021 میں سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اُفق پرنت نئی اختراعات، دلچسپ ایجادات اور متنوع انکشافات کی صورت میں کیا کچھ مزید ظہور میں آتا رہا اُس کا ایک مختصر سا جائزہ زیر نظر مضمون میں پیش خدمت ہے۔

سالِ گزشتہ سائنس کے میدان میں سب سے حیران کن خبر یہ سننے کو ملی کہ ماہرینِ فلکیات کی ایک عالمی ٹیم نے زمین سے تقریباً 2000 نوری سال دوری پر ایک ایسا نظامِ شمسی دریافت کرلیا ہے جس میں ایک،دو نہیں بلکہ پورے 6 ستارے ایک ہی مقام پر موجود ہیں۔ اس نظام شمسی کا نام ”کیسٹر“ رکھا گیا۔ اس عجیب و غریب نظامِ شمسی کو ماورائے شمسی سیارے تلاش کرنے والے خلائی مشن ”ٹی ای ایس ایس“کے سیارچے نے دریافت کیا ہے۔واضح رہے کہ سائنسدانوں نے ان میں سے کسی بھی ستارے کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا بلکہ اس نظامِ شمسی کی سمت سے زمین تک پہنچنے والی روشنی میں کمی بیشی کے ایک مخصوص انداز کو مدنظر رکھتے ہوئے تخمینہ لگایا ہے کہ یہ اتار چڑھاؤ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب اس نظام میں ایک ساتھ 6 ستارے موجود ہوں۔ ”کیسٹر“ دراصل 6 ستاروں پر مشتمل ہمارے نظام شمسی کی مانند ہی ایک نظام ہے مگرا س نظام میں دو دو ستارے، جوڑوں کی شکل میں ایک دوسرے کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔ماہرین فلکیات کی جانب سے امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس انوکھی دریافت سے نظام شمسی کے تشکیل سے متعلق پرانے سائنسی نظریات میں خاصی تبدیلی آسکتی ہے۔

نیز سال 2021 میں صرف 90 دن میں از خود ہی ختم ہوجانے پلاسٹک کی تیاری بھی ایک بڑی سائنسی ایجاد قرار پائی۔ اگرچہ ماحول دوست پلاسٹک کی تیاری میں سائنس دان طویل عرصہ سے مصروف تھے۔ مگر اس سمت قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو پارہی تھی لیکن اب امریکہ کہ مشہور ییل یونیورسٹی میں لکڑی کے کارخانوں میں بننے والے سفوف نما بُرادے کو نامیاتی پالیمر اور سیلیولوز کے ملاپ سے ایک گاڑھے محلول میں بدل کر اور اسے ہائیڈروجن بانڈنگ سے گزار کر نینوپیمانے کے ریشوں کوبایو پلاسٹک کی شکل دینے میں کامیابی حاصل کرلی گئی۔حیران کن طور پر یہ پلاسٹک مضبوط بھی ہے اور لچکدار بھی، اور جب اسے مٹی میں دفنایا گیاتووہ، دو ہفتے بعد ہی چٹخنے لگا اور تین ماہ میں مکمل طور پر غائب ہوگیا۔ اس بایو پلاسٹک میں بھاری مائع بھرنے اور سامان اٹھانے کا کامیاب تجربہ بھی کیا گیا۔اس سے قبل جو بھی بایو پلاسٹک بنائے گئے وہ نہایت کمزور اور غیرلچکدار ہونے کے ساتھ ساتھ لاگت میں بھی مہنگے تھے لیکن اسے بنانے کا طریقہ بہت سادہ اور کم خرچ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بایو پلاسٹک کے گھلنے کے عمل کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب یہ مائع بننے لگتا ہے تو اپنی ابتدائی حالت یعنی گاڑھے محلول میں بدل جاتا ہے۔ اس لمحے اسے صاف کرکے از سرنو بایو پلاسٹک میں بھی بدلا جاسکتا ہے۔

گزشتہ سال طب کے میدان سے بھی بنی نوع انساں کے لیئے کئی نفع بخش،مفید اور کارآمد خبریں سامنے آئیں،جن میں سب سے قابل ذکر خبر دل کی بے ترتیب ڈھڑکنوں کو قابو میں رکھنے کے لیئے ایک ایسے پیس میکر کی ایجاد ہے،جو بغیر بیٹری کے کام کرسکتاہے۔ واضح رہے کہ امراض قلب کا شکار بعض مریضوں میں دل کی بے ترتیب دھڑکن کو اعتدال میں رکھنے کے لیے سینے میں عموماً پیس میکر نصب کئے جاتے ہیں۔ تاہم، پیس میکر میں لگی بیٹری کا خراب یا بند ہوجانا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اب چینی ماہرین طب نے ایک ایسے پیس میکر کا تصور پیش کیا ہے جو دل کی حرارت سے چلے گا اور اسے چلانے کے لیے کسی بیٹری کی ضرورت نہیں رہے گی۔ شنگھائی میں واقع جیاؤ تونگ یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر ”وائی زائران“ اور ان کے ساتھیوں نے یہ انقلابی ایجاد کی ہے۔ پروفیسر وائی کے مطابق دل کی میکانکی حرکت سے یہ پیس میکر توانائی حاصل کرتے ہوئے کام کرے گا،نیز پیس میکر کے اندر ایک خاص نظام بنایا گیا ہے جو پیس میکر سے چپکا رہتا ہے اور پیزو الیکٹرک طرز پر کام کرتا ہے۔ یعنی دل کی گردش اور خون کے دباؤ سے بجلی بناتا ہے۔ یوں پیس میکر بلارکاوٹ بجلی کی فراہمی جاری رہتی ہے۔ فی الحال پیس میکر کا پروٹوٹائپ تیار کیا گیا ہے اور آزمائشی مراحل سے گزارا جارہا ہے۔ اگر یہ طریقہ کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے جسم کے اندرکئی اقسام کے برقی آلات نصب کرکے پیچیدہ امراض کا شکار مریضوں کو ایک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل بنایا جاسکے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2021 میں جدید ٹیکنالوجی کے اثرات سے پاؤں کے جوتے بھی نہ بچ سکے اور پہلی بار جدید ترین نینو ٹیکنالوجی سے لیس ”وی ٹیکس“ نامی جوتے کراؤڈ فنڈنگ کی مشہور زمانہ ویب سائٹ ”انڈی گوگو“ پر فروخت کے لیئے پیش کردیئے گئے۔ واضح رہے کہ جدید نینو ریشوں سے تیار کردہ یہ جوتا مکمل طور پر زنگ سے محفوظ رہتا ہے، پہننے میں آرام دہ اور ہلکا پھلکا ہے۔ یہ سردی اور گرمی سے مکمل طور پر پیروں کو محفوظ رکھتا ہے۔ اسی لیے سرد موسم میں عمررسیدہ افرادکے لیئے انتہائی کارآمد ہے۔جبکہ یہ جوتا پہن کر آپ بھلے اپنا پیر پانی سے بھرے ٹب میں ڈال دیجئے اور اس کا کوئی حصہ گیلا نہیں ہوگا کیونکہ یہ صرف واٹر پروف ہی نہیں بلکہ یہ پانی کو اپنے سے دور بھگانے کی اضافی خوبی بھی رکھتا ہے۔ اس لیے پانی کے ماحول میں کام کرنے والوں کے لیے اسے ایک بہترین ایجاد کہا جاسکتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ جوتا مکمل طور پر اینٹی بیکٹیریئل بھی ہے اور ہرقسم کے بیکٹیریا کو جمع ہونے سے روکتا ہے۔ خاص طور پرشوگر کے مریضوں کے لیے یہ بہت مناسب اور کارآمد ہے،جنہیں لگنے ولا معمولی سا زخم بھی بیکٹیریا اور دیگرانفیکشن کی وجہ سے ناسور بن جاتا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ اسے پہن کر برف اور ریت میں بھی باآسانی چلا جاسکتا ہے اور ریت یا برف جوتے کے اندر جمع نہیں ہوسکتی۔سادہ الفاظ میں آپ اسے ”جادوئی جوتا“ بھی قرار دے سکتے ہیں۔

اگر2021 میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت اور ترقی کی بات کی جائے تو کہا جاسکتاہے کہ سال ِ گزشتہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں زبردست بہتری اور ترقی کے بے شمارنئے در وا کرنے کا سبب بنا۔اس برس سب سے خوش کن خبر سننے کو یہ ملی کہ انٹرنیٹ براؤزنگ کی رفتار میں بہتری کے لیے ٹیکنالوجی کی دنیا کے تین بڑے حریف گوگل، ایپل اورمائیکروسافٹ ایک ہوگئے۔ٹیکنالوجی کی ویب سائٹ Cnet کے مطابق یہ تینوں کمپنیاں ورلڈ وائڈ ویب کنسورشیم میں ایک ساتھ آنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک آن لائن فورم بھی تشکیل دے دیا ہے۔تینوں کمپنیوں کے منتظمین کے مطابق اس مشترکہ کاوش کا مقصد ویب براؤزر ایکسٹینشنز کے ذریعے استعمال کنندگان کی انٹرنیٹ براؤزنگ کو زیادہ سے زیادہ تیزرفتار، محفوظ اور سہل بنانا ہے۔
دوسری طرف جب ساری دنیافائیو جی ٹیکنالوجی استعمال کرنے لیئے خود کو تیکنیکی طور پرہم آہنگ کرنے میں مصروف تھی کہ اچانک ہی سام سنگ الیکٹرونکس نے موبائل کمیونی کیشن میں فائیو جی سے بھی 50 گنا تیز رفتار 6 جی ٹیکنالوجی یعنی ’6 جی ٹیراہرٹز“ پروٹوٹائپ کا عملی مظاہرہ کرکے اپنے صارفین کو انگشت بدنداں کردیا۔ 6 جی ٹیکنالوجی کا یہ عملی مظاہرہ ٹیلی مواصلات کی عالمی کانفرنس میں سام سنگ الیکٹرونکس اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سانتا باربرا کی مشترکہ ٹیم نے کیا۔یاد رہے کہ فائیو جی ٹیکنالوجی میں موبائل ڈیٹا ٹرانسفر کی رفتار 40 ایم بی پی ایس (میگابٹس فی سیکنڈ) سے 1,100 ایم بی پی ایس تک ہوتی ہے۔مزید یہ کہ 6 جی موبائل کمیونی کیشن میں ٹیراہرٹز اسپیکٹرم سے تعلق رکھنے والی ریڈیو لہریں استعمال کی جاتی ہیں جن کی فریکوینسی 100 گیگاہرٹز سے 10 ٹیراہرٹز تک ہوتی ہے۔6 جی ٹیراہرٹز وائرلیس (موبائل) ٹیکنالوجی پروٹو ٹائپ کے عملی مظاہرے میں 140 گیگاہرٹز کا ڈیجیٹل وائرلیس لنک استعمال کرتے ہوئے 6.2 گیگابٹس فی سیکنڈ (6200 ایم بی پی ایس) کی رفتار سے ڈیٹا منتقل کیا گیا۔ اس موقع پر سام سنگ کا کہنا تھا کہ 6 جی ٹیکنالوجی سے ڈیٹا ٹرانسفر کی رفتار، فائیو جی کے مقابلے میں 50 گنا تک زیادہ ہوگی جبکہ اس کی اوسط رفتار، فائیو جی سے 10 گنا زیادہ رہے گی۔

نیز سال 2021 میں جدید ترین کمپیوٹر متعارف کروانے کی دوڑ بھی بدستور جاری رہی۔جسے برطانوی کمپنی ”ایکسپین اسکیپ“نے دنیا کا ایک انوکھا لیپ ٹاپ بناکر جیت لیا۔ اس کمپنی کے بنائے گئے لیپ ٹاپ کمپیوٹر میں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ پورے سات عدد ڈسپلے اسکرین نصب کیئے گئے ہیں اور اس کمپیوٹر کو ایکسپین اسکیپ اورا سیون کا نام دیا گیا ہے۔ یہ لیپ ٹاپ سائبرسیکیورٹی، سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج، آئی ٹی ماہرین، ڈیزائنر، اسٹاک ایکسچینج اور آن لائن ٹریڈنگ ماہرین کے لیے بطورِ خاص تیار کیا گیا ہے۔یہ دنیا کا پہلا لیپ ٹاپ ہے جس پر مختلف جسامت کے سات عدد ڈسپلے لگائے گئے ہیں۔اس میں 17.3 انچ کے چار بڑے مانیٹر ہیں جن میں سے دو لینڈ اسکیپ اور دو پورٹریٹ اسٹائل کے ہیں۔ سب کے سب فورکے اسکرین ریزولوشن کے حامل ہیں۔ جبکہ سات سات انچ کے تین ڈسپلے اور لگائے گئے ہیں۔ اس کا مضبوط ڈھانچہ تمام ڈسپلے کو سنبھالتا ہے۔ کمپنی کے مطابق اس میں انٹیل کو آئی نائن 9900 کے پروسیسر ہے، 64 جی بی ڈی ڈی آر فور 2666 میموری اور ہارڈ ڈسک کی گنجائش دو ٹیرابائٹ ہے۔

خیال رہے کہ 2021 کا سال انفارفیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی غیر معمولی اور تاریخی ترقی کئی دیگر صنعتی شعبوں کے لیئے بحران کا سبب بھی بنی رہی۔ جیسے کمپیوٹرز لیپ ٹاپ کی غیرمعمولی تیاری اور فروخت کی وجہ سے دنیا بھر میں بالخصوص کارسازی کے شعبے میں مائیکروچپ سیمی کنڈکٹر کی کمی ایک بحران کی شکل اختیار کرگئی۔ ذہن نشین رہے کہ کاروں، بسوں اور دیگر سواریوں کے برقی نظام، سینسر اور دیگراہم امور کے لئے برقی چِپ لگائی جاتی ہیں اور مائیکروچپ ہی کی بدولت ہی جدید کاروں کے بریک کام کرتے اور اسٹیئرنگ کام کرتے ہیں۔ دراصل کووڈ19 وبا سے بچاؤ کے لیئے لگنے والے عالمگیر لاک ڈاؤن میں لیپ ٹاپ، کیمروں، ٹیبلٹ کی فروخت کئی گنا بڑھی۔کیونکہ والدین کو بچوں کی آن لائن کلاسوں کے لیے لیپ ٹاپ درکارتھے تو اس لیپ ٹاپس اور کمپیوٹر ز کی زبردست فروخت ہوئی۔ سیمی کنڈکٹر انڈسٹری ایسوسی ایشن کے مطابق 2021 کی پہلی سہ ماہی میں ہی مائیکروچپ سازی کی صنعت 40 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح تک جاپہنچی تھی اور اب تو یہ حال ہے کہ ایک بڑی کارساز کمپنی نے تائیوان کی چپ ساز کمپنی سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر ان کی پیداوار بڑھائیں ورنہ ان کی کمپنی دیوالیہ ہوجائے گی۔

دوسری جانب 2021 میں ڈیجیٹل روپیہ یعنی کرپٹوکرنسی نے بھی تاریخ ساز اُتار اور چڑھاؤ دیکھے اور گزشتہ سال وہ نازک وقت بھی آیا جب صرف 24 گھنٹے میں کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ 2اعشاریہ 2 کھرب ڈالر سے کم ہوکر 1اعشاریہ 9 کھرب ڈالر پر پہنچ گئی اور دنیا بھر میں 300 ارب ڈالر مالیت کے بٹ کوائن غائب ہوگئے۔ یہ اُتار چین کے علاقے زن جیانگ میں کرپٹو کرنسی خصوصا بٹ کوائن کے خلاف چینی حکومت کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سامنے آیا تھا۔ چونکہ زن جیانگ کو بٹ کوائن کی ماءئنگ نیٹ ورک کا دنیا کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا۔اس لیئے وہاں چینی حکومت کی طرف سے ہونے والے کریک ڈاؤن کی خبروں کی وجہ سے بٹ کوائن کی مائننگ 215 ایگزا ہیش فی سیکنڈ سے کم ہوکر 120 ایگزا ہیش فی سکینڈ ہوگئی اور کرپٹو کرنسی کے صارفین یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے شاید بٹ کوائن کا مستقبل تاریک ہونے کے قریب ہے۔

مگر چند ہفتے بعد ہی کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ میں ایسا چڑھاؤ دیکھنے میں آیا کہ راتوں رات ہی ایک بٹ کوائن کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح 68 ہزار امریکی ڈالر سے بھی تجاوز کرگئی۔ کرپٹو کرنسی کی مالیت میں غیر معمولی اضافہ کی بنیادی وجوہات میں سرفہرست رقم منتقلی کی مشہور عالمی سروس ”پے پال“ کے ماتحت ادارے ”وینمو“ کا کرپٹو کرنسی میں خرید و فروخت شروع کرنا اور دنیائے کمپیوٹر کے مشہور ترین اینٹی وائرس سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی نورٹن کا کرپٹو کرنسی کی مائننگ کو اپنی مصنوعات کی فہرست میں شامل کرنا تھا۔ماہرین کا خیال ہے کہ نورٹن اور پے پال نے کرپٹوکرنسی کے لیئے ترقی،مقبولیت اور کامیابی کا ایک ایسا دروازہ کھول دیا ہے۔ جس کے بعد کرپٹو کرنسی کے لیئے قابلِ قبول بین الاقوامی کرنسی بننے کی راہ کافی حد تک صاف ہوچکی ہے اور اَب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب دنیا کے دیگر مالیاتی ادارے بھی کرپٹو کرنسی کو اختیار کیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں